17 فروری ، 2020
لاہور قلندرز نے مایوس ہو کر کرکٹ چھوڑنے والے کو اپنی ٹیم کا کپتان بنا کر سب کو حیران کر دیا۔
لاہور قلندرز کی مینجمنٹ دو برسوں سے گروم کر رہی تھی، یقین ہے کہ لاہور قلندرز کی انتظامیہ نے جس اعتماد کا اظہار کیا ہے اس پر پورا اتروں گا۔
لاہور قلندرز نے پی ایس ایل فائیو کے ڈرافٹ کے موقع پر جارحانہ انداز میں بیٹنگ کرنے والے سہیل اختر کو جب کپتان مقرر کرنے کا اعلان کیا تو سب حیران رہ گئے، سب نے ایک دوسرے سے پوچھنا شروع کر دیا کہ سہیل اختر کون ہے اور وہ کیسے کپتان بن گیا جب کہ ٹیم میں دیگر سینئر اور تجربہ کار کرکٹرز بھی موجود ہیں لیکن لاہور قلندرز کی انتطامیہ نے ایک بار پھر اپنے پلئیرز ڈویلپمنٹ پروگرام پر اعتماد کا اظہار کیا اور اسی پلیٹ فارم سے جس کرکٹر کو انہوں نے موقع دیا اور اس نے اپنی شناخت بنائی اس کو قیادت سونپ دی۔
اس حوالے سے کپتان سہیل اختر نے جیو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ میں تین برسوں سے لاہور قلندرز کے ساتھ ہوں، مینجمنٹ نے بہت حوصلہ افزائی کی، میں ٹیم کے ہمراہ آسٹریلیا گیا اور ابو ظہبی کپ میں بھی کپتانی کی اور جب ابوظہبی میں کامیابی حاصل کی تو مجھے اندازہ ہوا کہ لاہور قلندرز کی انتظامیہ مجھے کپتان کی حیثیت سے گروم کر رہی ہے۔
سہیل اختر نے کہا کہ قلندرز انتظامیہ نے مجھے دو برس تک گروم کیا اور جب کپتانی سونپنے کا وقت آیا تو مینجمنٹ نے مجھے کہا کہ وہ مجھے کپتان بنانا چاہتے ہیں تو کیا آپ تیار ہیں تو میں نے فوری ہاں کر دی اس لیے میرے لیے یہ سب حیران کن نہیں تھا، میں ذہنی طور پر تیار تھا۔
انہوں نے کہا کہ مجھ پر کسی قسم کا دباؤ نہیں ہے اور نہ میں یہ سوچتا ہوں کہ میں پہلی مرتبہ اتنے بڑے ایونٹ میں قیادت کر رہا ہوں، میرے ساتھ سینئر کھلاڑی بھی موجود ہیں، مجھے سینئر کھلاڑیوں کی وجہ سے فائدہ ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ محمد حفیظ، سلمان بٹ اور فخر زمان میری مدد کے لیے ساتھ ہوں گے، ان کے ساتھ ٹریننگ کے دوران بھی بہت کچھ سیکھا ہے اور ٹورنامنٹ میں بھی فائدہ ہو گا۔
کپتان لاہور قلندرز نے کہا کہ پی ایس ایل کی سب سے متحرک اور مقبول فرنچائز کی کپتانی کرنا میرے لیے فخر کی بات ہے، اب مجھے بس اعتماد پر پورا اترنا ہے اور یہی سوچ ہے کہ ٹیم کے لیے اچھے سے اچھا کرنا ہے۔
کپتان سہیل اختر نے اپنے سفر کے بارے میں بتایا کہ میں نے تو مایوس ہو کر کرکٹ چھوڑی ہو ئی تھی، ایبٹ آباد ریجن میں مجھے مواقع نہ ملے، میں مایوس ہو چکا تھا، ایبٹ آباد ریجن کی تنزلی بھی ہو چکی تھی اور تین برسوں کے بعد مجھے گریڈ ٹو میں موقع ملا، اچھا کرنے میں کامیاب ہوا اور پھر لاہور قلندرز کے ساتھ جڑ گیا، مجھے موقع دیا گیا تو میں نے خود کو ثابت کیا۔
ان کا کہنا تھا جب کسی کھلاڑی پر اعتماد کیا جاتا ہے تو وہ اپنی محنت سے 20 سے 120 فیصد تک محنت کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے، لاہور قلندرز نے میری فٹنس اور میری خوراک پر کام کیا اور اسی کا مجھے اب فائدہ ہو رہا ہے۔