بلاگ
Time 21 فروری ، 2020

ہاؤس نمبر 15، منسٹر کالونی، اسلام آباد

فوٹو: سوشل میڈیا

نعیم الحق وزیراعظم کے معاونِ خصوصی تھے، اُن کا عہدہ وزیر مملکت کے برابر تھا۔ ان کی رہائشگاہ منسٹر کالونی کے ہاؤس نمبر 15میں تھی۔ وہ ابھی زندہ تھے مگر اُن کے بنگلے پر قبضے کی جنگ شروع ہو گئی تھی۔

ڈاکٹرز نے بتا دیا تھا کہ وزیر مملکت چند دنوں کے مہمان ہیں۔ جب بیماری نے شدت اختیار کی تھی تو ان کی ناقدری کا آغاز ہوا اور پھر روز بروز د ن بڑھتی چلی گئی۔ وہ کراچی نہیں جانا چاہتے تھے انہوں نے باقاعدہ وصیت کی تھی کہ مجھے اسلام آباد دفن کیا جائے۔

کئی ماہ پہلے بنی گالہ کے قبرستان میں اپنے لئے قبر کی جگہ بھی سلیکٹ کی تھی۔ افسوس کہ جن ساتھیوں پر تکیہ تھا انہوں نے ہی وفا نہ کی۔ جب دیکھا کہ سیاسی امور کے معاون خصوصی بس چند دن اور ہیں تو انہوں نے ان کے بیٹےکو کراچی سے بلا لیا کہ آئیں اور انہیں اپنے ساتھ کراچی لے جائیں۔ شاید بنگلے پر قبضہ کرنے والوں سے ان کی موت کا انتظار نہیں ہو رہا تھا۔ نعیم الحق کے بیٹے امان الحق نے ان کے ساتھیوں سے کہا کہ وہ کراچی آنے پر تیار نہیں ہیں۔

میں انہیں پہلے بھی کئی مرتبہ کہہ چکا ہوں۔ ساتھیوں نے بیٹے کو مشورہ دیا کہ آپ اپنے ابو سے کہیں کہ ہم علاج کے لئے آپ کو لندن لے کر جا رہے ہیں۔ سو بیٹے نے باپ کو یہی کہا۔ باپ تیار ہو گیا۔ وہ جاتے ہوئے اپنے گھر میں کام کرنے والے تمام ملازمین سے ملا اور انہیں کہا کہ میں علاج کے لئے لندن جا رہا ہوں، آپ بےفکر رہیں۔ بہت جلد ٹھیک ہو کر واپس آجاؤں گا۔ جب بیٹا ان کو لے جانے لگا تو وہاں ان کے دفتر کا کوئی آدمی موجود نہیں تھا۔

اتفاق سے قاسم خان سوری ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی وہاں موجود تھے جو ان کی عیادت کرنے آئے تھے۔ انہوں نے سوچا کہ چلو میں بھی ایئرپورٹ تک انہیں الوداع کہنے چلا جاؤں۔ جب ایئر پورٹ پہنچے تو وہاں وفاقی وزیر کے برابر کا عہدہ رکھنے والے وزیراعظم کے معاون خصوصی کیلئے کوئی بندوبست نہیں تھا۔ سرکاری طور پر کوئی نہیں تھا جو ویل چیئر منگواتا۔

بورڈنگ کارڈ حاصل کرتا۔ یہ صورتحال دیکھ کر قاسم خان سوری نے اپنے اسٹاف کو بلایا اور انہوں نے جلدی سے تمام معاملات مکمل کرائے۔ بڑی مشکل سے انہیں کار سے ویل چیئر پر منتقل کیا گیا اور پھرجہاز کی نشست پر بٹھایا گیا۔ جب جہاز لندن کے بجائے کراچی ایئر پورٹ اترا اور اسے بیٹا اپنے گھر لے آیا تو نعیم الحق کو معلوم ہو گیا کہ اس کے ساتھ کیا کیا گیا ہے۔ اسے مرنے کے لئے گھر بھیج دیا گیا ہے۔ یہ خبر اس کے لئے اس کی موت سے زیادہ تکلیف دہ تھی۔ سو وہ وقت سے پہلے دنیا سے رخصت ہو گیا۔

ڈاکٹرز کے خیال کے مطابق اگر اسپتال میں ان کا علاج جاری رکھا جاتا تو اس بات کا قوی امکان تھا کہ وہ ایک ڈیڑھ مہینے اور زندہ رہتا۔ عمران خان کو چاہئے کہ وہ تحقیقات کرائیں کہ آخری دنوں میں نعیم الحق کے ساتھ ایسا سلوک کن لوگوں نے کیا۔ اگر ایک وفاقی وزیر بھی کسمپرسی کی حالت میں مر جائے تو کسی اور کے ساتھ کیا انصاف ہو گا۔

یہ سب سوال بہت اہم ہیں کہ ان کے ساتھ ان کا اسٹاف کیوں نہیں تھا۔ ان کا باقاعدہ پروگرام کیوں نہیں جاری کیا گیا۔ انہیں کراچی اور اسلام آباد میں پروٹوکول کیوں نہیں فراہم کیا گیا۔ انہیں گھر سے ایئر پورٹ تک ایمبولینس میں کیوں نہیں بھیجا گیا۔ قانوناً تو وفاقی وزیر اگر بیمار ہو اس کے لئے ایئر ایمبولینس فراہم کی جاتی ہے۔

وفاقی وزیر کے لئے تو طیارہ بھی چارٹر کیا جا سکتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ جب بینظیر بھٹو وزیراعظم ہوا کرتی تھیں اور آصف علی زرداری صرف ایم این اے تھے تو وہ جب بھی نواب شاہ جاتے تو ڈاکٹر شیر افگن خان نیازی کو ساتھ لے جاتے تھے۔ میں نے ایک دن ڈاکٹر شیر افگن سے پوچھا کہ آصف علی زرداری کو یکدم آپ سے اتنی محبت کیسے ہو گئی تو ہنس کر کہنے لگے ’’وہ جس طیارے پر جاتے ہیں۔

قانونی طور پر وہ اسے استعمال نہیں کر سکتے مگر ایک وفاقی وزیر کر سکتا ہے۔ میں چونکہ وفاقی وزیر ہوں اس لئے مجھے بھی ساتھ جانا پڑتا ہے۔

پچھلے پندرہ بیس دنوں میں عمران خان نے دو مرتبہ نعیم الحق کی عیادت کی۔ دونوں مرتبہ جب عمران خان وہاں پہنچے تو وہاں دو ایسے اشخاص موجود تھے جن کے بارے میں عمران خان کہہ چکے تھے کہ انہیں میرے سامنے مت آنے دیا جائے۔

اس بات پر نعیم الحق حیران تھے کہ جیسے ہی عمران خان اس کے پاس آئے۔ یہ دونوں یہاں کیسے پہنچ گئے بہرحال ان میں ایک شخص تو آج کل پھر عمران خان کی میٹنگز میں شریک ہو رہا ہے مگر کس حیثیت سے؟ اس سوال کا جواب ابھی وزیراعظم سیکرٹریٹ میں کسی کے پاس نہیں۔

پی ٹی آئی کے کارکنوں کو اس بات کا بہت دکھ ہے کہ عمران خان نعیم الحق کے جنازے میں شریک نہیں ہوئے۔ خبر یہی ہے کہ وہ جنازے پر کراچی جانا چاہتے تھے مگر انہیں کہا گیا کہ سیکورٹی کے مسائل خاصے گمبھیر ہیں۔ آپ کراچی نہیں جا سکتے۔

مجھے اس بات پر حیرت ہے کہ عمران خان نے یہ کیوں نہیں کہا کہ یہ سیکورٹی فراہم کرنے والوں کا کام ہے، وہ سیکورٹی فراہم کریں میں نے ہر حال میں جانا ہے۔ اگر سیکورٹی کا بہت ہی مسئلہ تھا تو نعیم الحق کا جنازہ گورنر ہائوس کے لان میں بھی پڑھایا جا سکتا تھا۔

چلو عمران خان کے لئے تو سیکورٹی کا مسئلہ تھا۔ باقی کیبنٹ کو کیا ہوا تھا وہ جنازے پر کیوں نہیں گئی۔ جنازے میں صرف کراچی میں موجود وزیر ہی شریک ہوئے۔ اسلام آباد سے صرف مشیر اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اور ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری جنازے میں شریک ہوئے۔

وزیروں اور مشیروں کی فہرست میں فردوس عاشق اعوان سے زیادہ کوئی مصروف نہیں۔ جتنے احسن انداز میں انہوں نے وزارتِ اطلاعات و نشریات کو چلایا ہے، اس کی ایک دنیا معترف ہے۔

اپنی تمام تر مصروفیات کو منسوخ کر کے وہ کراچی پہنچ گئیں مگر وہ سارے وزیر جو سارا سارا دن نعیم الحق کی خوشامدیں کیا کرتے تھے۔ اب ان کے پاس اس کے جنازے کے لئے وقت نہیں تھا۔ مجھے یقین ہے کہ عمران خان جنازے پر گئے ہوتے تو انہیں دکھانے کے لئے ساری کیبنٹ وہاں پہنچی ہوتی بلکہ پنجاب اور سندھ کے وزیر بھی پہنچ گئے ہوتے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔