03 مارچ ، 2020
قطر میں افغان طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے قیدیوں کی رہائی سے متعلق کہا ہے کہ طالبان اپنے قیدیوں کی رہائی کے لیے صرف ان سے بات کریں گے جن کے پاس اختیار ہے۔
امریکا اور طالبان کے درمیان 29 فروری کو امن معاہدہ ہوا تھا جس کے تحت 10 مارچ تک انٹرافغان مذاکرات سے قبل دونوں جانب سے قیدیوں کو رہا کرنا تھا۔
تاہم افغان صدر اشرف غنی نے معاہدے کے چند گھنٹوں بعد ہی طالبان کے قیدیوں کو رہا کرنے سے انکار کردیا تھا جس پر طالبان نے بھی بین الافغان مذاکرات میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس حوالے سے قطر میں افغان طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا ہے کہ طالبان اپنے قیدیوں کی رہائی کے لیے بات ان سے کریں گے جن کے پاس اختیار ہے، دوحہ میں طالبان وفد نے افغان حکومت کے نمائندوں سے ملاقات نہیں کی ، نہ ہی کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ دونوں اطراف کے قیدیوں کے ذمہ دارحکام انٹرا افغان مذاکرات سے قبل ملاقات کرسکتے ہیں۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز طالبان نے افغان فورسز کیخلاف کارروائیاں دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔
افغان طالبان کا کہنا تھا کہ امریکا سے ہونے والے معاہدے سے قبل جو 7 روزہ عارضی جنگ بندی کی گئی تھی اس کا دورانیہ اب ختم ہوچکا ہے لہٰذا افغان فورسز کیخلاف اپنی معمول کی کارروائیاں دوبارہ شروع کررہے ہیں۔
دوحہ معاہدے کے تحت افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کا انخلا آئندہ 14 ماہ کے دوران ہوگا جب کہ اس کے جواب میں طالبان کو ضمانت دینی ہے کہ افغان سرزمین القاعدہ سمیت دہشت گرد تنظیموں کے زیر استعمال نہیں آنے دیں گے۔
معاہدے کا اطلاق فوری طور پر ہوگا، 14 ماہ میں تمام امریکی اور نیٹو افواج کا افغانستان سے انخلاء ہوگا، ابتدائی 135 روز میں امریکا افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد 8600 تک کم کرے گا اور اس کے ساتھ ساتھ اتحادی افواج کی تعداد بھی اسی تناسب سے کم کی جائے گی۔
معاہدے کے تحت قیدیوں کا تبادلہ بھی کیا جائے گا۔ 10 مارچ 2020 تک طالبان کے 5 ہزار قیدی اور افغان سیکیورٹی فورسز کے ایک ہزار اہلکاروں کو رہا کیا جائے گا اور اس کے فوراً بعد افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات شروع ہوں گے۔
معاہدے کے مطابق امریکا طالبان پر عائد پابندیاں ختم کرے گا اور اقوام متحدہ کی جانب سے طالبان رہنماؤں پر عائد پابندیاں ختم کرنے پر زور دے گا۔
معاہدے کے تحت افغان طالبان اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ افغان سرزمین امریکا اور اس کے اتحادیوں کیخلاف استعمال نہ ہو۔