قومیں سڑکیں بنانے سے نہیں بنتیں

جس حکومت کا وژن یہ ہو کہ قومیں سڑکیں بنانے سے نہیں بنتیں وہاں اور کیا توقع کی جا سکتی ہے—فوٹو فائل

کم و بیش 8ماہ بعد جنوبی پنجاب کا رُخ کیا تو یہی سوچ رہا تھا کہ ’’نئے پاکستان‘‘ میں اُمڈ کر آنے والی تبدیلی کی لہر نے وہاں کیا قیامت ڈھائی ہوگی۔ اگرچہ لاہور سے ملتان یا بہاولپور جانے کے لئے موٹروے کی صورت میں آرام دہ سفر کی سہولت دستیاب تھی لیکن مشکل راستے کا انتخاب کرنے کی عادت نہ گئی اور ملتان روڈ کے ذریعے جانے کا فیصلہ کیا تاکہ شہروں پر تبدیلی کے اثرات کا مشاہدہ کیا جا سکے۔ 

مانگا منڈی سے نکلتے ہی سڑک کی حالتِ زار دیکھ کر اندازہ ہو گیا کہ یہ سفر ضرور یادگار ہو گا۔ جابجا لپک کر ٹائروں کو فرشی سلام پیش کرتے کھڈے بتا رہے تھے کہ سونامی کی لہر نے انہیں بھی شدید متاثر کیا ہے۔ سفر پر روانہ ہونے سے دو دن پہلے ہی گاڑی کے ٹائر تبدیل کروائے تھے اس لئے اطمینان تو تھا مگر ٹوٹ پھوٹ کا شکار سڑک کی خود اعتمادی بھی قابلِ دید تھی۔ 

جیسے تیسے ملتان پہنچے اور پھر شیڈول کے مطابق بہاولپور کی طرف روانہ ہوئے۔ شجاع آباد سے بذریعہ ظریف شہید، گیلے وال، لودھراں، بہاولپور تک کی سڑک بھی دشوار گزار راستے میں تبدیل ہو چکی ہے۔ بالخصوص گیلے وال سے لودھراں تک کا علاقہ جو پی ٹی آئی کےایک اہم رہنما کے حلقے میں آتا ہے، وہ سب سے زیادہ پسماندہ ہے۔ 

مقامی افراد نے بتایا کہ ہر سال ان سڑکوں کی مرمت ہوا کرتی تھی مگر جب سے تبدیلی سرکار آئی ہے، ایک بار بھی مرمت کا کام نہیں ہوا۔ شجاع آباد روڈ کے خراب ہونے کی ایک وجہ وہ چینی کنٹینر اور ٹرک بھی ہیں جو سی پیک پر ہونے والے تعمیراتی کام کے لئے یہاں آئے تو سڑک ان کا بوجھ نہ اُٹھا سکی۔ جہاں تک جنوبی پنجاب کے عوامی نمائندوں کا سوال ہے تو یہ ان کی پرانی روش ہے کہ پانچ سال خاموش رہتے ہیں، جیسے ہی کسی حکومت کے رخصت ہونے کا وقت قریب آتا ہے، یہ ہواؤں کا رُخ دیکھ کر اندازہ لگا لیتے ہیں کہ اس بار کونسی جماعت برسر اقتدار آنے والی ہے اور جیسے تیسے اس جماعت میں شامل ہو جاتے ہیں۔ 

الیکشن جیتنے کے بعد چند روز کوئی عہدہ حاصل کرنے کی دوڑ دھوپ کرتے ہیں اور پھر پانچ سال کے لئے خاموش ہو کر بیٹھ جاتے ہیں۔ آپ پنجاب اسمبلی کا ریکارڈ اُٹھا کر دیکھ لیں یا پھر قومی اسمبلی کی کارروائی ملاحظہ فرمائیں تو کبھی جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والا کوئی رکن اسمبلی اپنے علاقے کے مسائل پر بات کرتا ہوا نظر نہیں آئے گا ۔

لودھراں شہر میں داخل ہوتے ہی اس شہر کی نمایاں ترین شخصیت کے نام کے بڑے بڑے سائن بورڈ نظر آتے ہیں بلکہ قومی خزانے سے مکمل ہونے والے منصوبوں کی افتتاحی تختیوں پر بھی ان کا نام اور تصویر سیاسی مخالفین کا منہ چڑاتی ہے۔ البتہ شہر میں ان نعروں کی گونج بھی سنائی دیتی ہے جو پی ایس ایل میچ کے دوران ان کی موجودگی میں لگائے گئے۔

لوگ چینی کے نرخ بڑھ جانے پر ان سے ناراض ہیں اور کسی صورت یہ بات تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ چینی بحران میں اُن کا کوئی کردار نہیں۔ بہاولپور شہر کے لوگ مہنگائی اور بےروزگاری سے تو پریشان ہیں ہی مگر اس لئے بھی نالاں ہیں کہ ان کیساتھ وعدہ خلافی کی گئی۔ انتخابات سے پہلے ان سے یہ کہہ کر ووٹ لئے گئے تھے کہ 100دن میں نیا صوبہ بنایا جائے گا مگر دو سال بعد بھی نئے صوبے کے آثار دکھائی نہیں دیتے۔ 

ریاست بہاولپور کے مثالی نظم و نسق اور اس دور کی خوشحالی کی مثالیں دیتے ہوئے لوگ اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ ملتان کیساتھ ساتھ بہاولپور کو بھی الگ صوبہ بنایا جائے کیونکہ اگر الگ ریاست کے طور پر بہاولپور ترقی کر سکتا ہے تو الگ صوبے کے طور پر بھی اس کا انتظام چلایا جا سکتا ہے۔ 

پورے ملک کی طرح کاروباری افراد یہاں بھی مایوس ہیں مگر بعض لوگوں کی پانچوں گھی میں ہیں اور وہ بہت تیز رفتاری سے ترقی کر رہے ہیں۔ مثال کے طور پی ٹی آئی کے ایک صوبائی وزیر جو اس سے پہلے مسلم لیگ (ن) میں تھے، ان کی اپنی ٹف ٹائل کی فیکٹریاں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ گلی محلوں اور بازاروں میں سڑکیں بنانے کے بجائے ٹف ٹائلیں لگانے کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ 

اسی طرح موصوف نے پائپ فیکٹری بھی لگا رکھی ہے، شہر میں کہیں بھی کوئی ترقیاتی کام ہوتا ہے یا پھر سیوریج پائپ لائن بچھائی جاتی ہے تو سامان ان کی فیکٹریوں سے خریدا جاتا ہے۔ گویا تنگدستی کے اس دور میں بھی بعض افراد خوشحال ہو رہے ہیں۔

واپسی پر ایک بار پھر بذریعہ ہائی وے لاہور آنے کا فیصلہ کیا۔ بہاولپور سے براستہ دنیا پور خانیوال تک کا سفر تو اچھا گزرا مگر اس کے بعد پھر وہی کٹھن راستے۔ راستے میں بیشمار گاڑیاں برلب سڑک ٹھہری نظر آئیں اور لوگ گاڑیوں کے ٹائر تبدیل کرتے پائے گئے۔ ہماری گاڑی سے بھی جب کوئی کھڈادامن گیر ہوتا تو یوں لگتا جیسے ٹائرکی ہمت جواب دے جائے گی مگر خوش قسمتی سے یہ نوبت نہ آئی البتہ رینالہ خورد بائی پاس سے چند کلومیٹر پہلے ایک ٹائر کھڈوں کی تاب نہ لاتے ہوئے وفات پاگیا تو گاڑی روک کر ٹائر تبدیل کرنا پڑا۔ 

جب ٹائر تبدیل کرنے کے بعد نٹ کسے جا رہے تھے تو ہائی وے پیٹرول کی گاڑی آگئی اور ایک خوش اخلاق افسر نے نیچے اُتر کر پیشکش کی کسی قسم کا تعاون درکار ہو تو بتائیں۔ گپ شپ ہوئی تو انہوں نے بتایاکہ آپ خوش قسمت ہیں کہ ٹائر تبدیل کرتے ہوئے کوئی اور حادثہ نہیں ہوا ورنہ یہاں تو ایک منٹ میں واردات ہو جاتی ہے۔ 

میں نے سڑک کی ناگفتہ بہ حالت سے متعلق دریافت کرتے ہوئے کہا کہ سالانہ مرمت نہیں ہوئی کیا؟ اس نے سر ہلاتے ہوئے کہا، ہونی بھی نہیں ۔میں نے پوچھا وہ کیوں؟ ہنستے ہوئے کہنے لگا، تبدیلی زندہ باد۔ گویا تبدیلی کا جادو پورے ملک میں سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ لاہور سے گوجرانوالہ اور فیصل آباد روڈ کا بھی یہی حال ہے جس حکومت کا وژن یہ ہو کہ قومیں سڑکیں بنانے سے نہیں بنتیں وہاں اور کیا توقع کی جا سکتی ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔