11 مارچ ، 2020
کرکٹ کے میدان کا فاتح کپتان اور گزشتہ 22برس سے کار زارِ سیاست میں مسلسل اپوزیشن کرنے کے بعد وزیراعظم تو بن گیا لیکن اقتدار سنبھالتے ہی معاشی حالات پر قابو پانے کے چیلنج نے کوشش کے باوجود ابھی تک سنبھلنے کا موقع نہیں دیا۔
کپتان کا کبھی نظام کبھی قوانین اور کبھی اپنی ہی ٹیم پر برسنا ان کی بےچینی اور پریشانی کا عکاس ہے۔ کوئی کچھ بھی کہے موجودہ حالات اور عوام کے عدم اطمینان کی ایک بڑی وجہ خود خان صاحب کے بلند و بانگ دعوے، وعدے اور بڑے بڑے اعلانات ہیں جن کی تکمیل خود ان کے لئے ایک ڈراؤنا خواب بن چکا ہے۔
35 ہزار ارب روپے قرضے کی تحقیقات کے چکر میں ڈیڑھ سال میں قرض بڑھ کر 41ہزار 500ارب کو پہنچ گیا، کرپشن پر تحقیقات کے ریکوری یونٹ پر کروڑوں لگ گئے مگر ایک پائی وصولی نہ ہوئی۔ تمام وزارتوں کی نگرانی کے لیے ٹاسک فورسز بنیں، کارکردگی اور ماہانہ رپورٹس ابھی تک ہوا میں ہیں، وزیراعظم ہر تین ماہ بعد اپنی کابینہ کی نگرانی، چیک اینڈ بیلنس اور کارکردگی کا جائزہ چاہتے تھے جو دسمبر 2018میں ایک سیشن کے بعد اب تک ممکن نہیں ہو سکا۔
کابینہ کا حجم چھوٹا رکھنے کی خواہش میں اقتدار کی کشتی میں سواروں کی تعداد 48ہو چکی ہے۔ پارلیمنٹ میں ایک گھنٹہ جوابات دینے کا موقع ابھی تک نہیں مل رہا، عالمی ارب پتی سرمایہ کار پاکستان لانے اور پاکستانیوں کو روزگار کے لئے بیرون ملک بھجوانے میں کامیابی بھی کوسوں دور ہے۔ روپے کی قدر بڑھانے اور ڈالر کنٹرول کرنا باقی ہے۔ ایک کروڑ نوکریاں اور 50 لاکھ گھر بھی ابھی بنانے ہیں۔
صحت، تعلیم اور پولیس اصلاحات سمیت انصاف کے نئے نظام پر بھی ابھی کام ادھورا ہے۔ اب تو اپوزیشن بھی کہتی ہے کہ وہ نہیں بلکہ کپتان کو اپنی نااہل ٹیم سے خطرہ ہے کیونکہ وزیراعظم اپنے طاقتور حواریوں کے چنگل میں پھنس چکے ہیں جن کے خلاف وہ ثبوت کے باوجود ایکشن نہیں لے سکتے۔ ماہرین کی نظر میں بڑھتی مہنگائی اور گرتی معیشت بڑے چیلنجز ہیں، اسی دبائو کے باعث ڈیڑھ سال میں بجلی کی قیمت 3.85 روپے فی یونٹ، گیس کی قیمت 334 فیصد، پیٹرول کی 21 روپے فی لیٹر بڑھی، روپے کی قدر میں بتیس روپے کم ہوئی۔
گیس مہنگی ہونے سے یوریا کی قیمت بڑھی تو زرعی شعبہ متاثر ہوا ساتھ ہی صنعت اور تعمیراتی لاگت بھی بڑھ گئی۔ سی این جی کی قیمت میں اضافے سے مسافر کا خرچہ کئی گنا بڑھ گیا۔ تیل اور پٹرول کی قیمت بڑھی تو تجارتی اخراجات، جہاز، ریل گاڑیاں اور دیگر ٹرانسپورٹ مہنگی ہو گئی۔ ماہرین کی نظر میں بجلی گیس اور تیل کی قیمتیں روکنے سے مہنگائی کا زور کم ہو سکتا ہے۔
صوبائی حکومتیں ضلعی و صوبائی پرائس کنٹرول کمیٹیوں کے روزانہ جائزہ اجلاس سے قیمتوں پر قابو پا سکتے ہیں۔ ہمارے قریبی دوست اور ماہر فارن ایمپلائمنٹ امور سینیٹر انور بیگ کی رائے میں معاشی پہیہ فوری چلانے کے لئے واحد راستہ پاکستانیوں کو بیرون ملک بھجوا کر زرمبادلہ میں اضافہ ہے، حکومت تارکینِ وطن کی ریمٹینسز 22ارب ڈالر سے 30ارب ڈالر تک لےجانے کا خواب تبھی پورا کرسکتی ہے جب وہ ملک کی 65فیصد نوجوان آبادی کے لئے چھوٹے چھوٹے پیشوں میں تربیت و مہارت کے پروگرام شروع کرے۔ جاپان تو پہلے ہی 14شعبوں میں ساڑھے تین لاکھ سے زائد نوکریاں دینے کا اعلان کر چکا ہے لیکن بدقسمتی سے ہم ہی تیار نہیں۔
وزیراعظم خود یورپ، جنوبی افریقا، جاپان، ملائیشیا، ترکی، سعودی عرب اور یو اے ای سمیت مشرق وسطیٰ کے ممالک میں اپنے سفیروں کو بلا کر ٹاسک دیں کہ وہ متعلقہ حکومتوں کو پاکستانی ورکرز کے لئے نوکریوں کے مواقع دیں۔ انور بیگ کی رائے میں ایک شخص کے بیرونِ ملک نوکری سے گھر کے آٹھ سے دس افراد کے کنبہ کی زندگی آسان ہو جاتی ہے۔
معاشی ترقی کا پہیہ چلے تو قرض بھی اترے گا اور نئی سرمایہ کاری بھی آئے گی۔ بظاہر یہ آسان لگتا ہے لیکن ڈیڑھ سال کی کارکردگی کو دیکھ کر ان مشوروں پر عمل عبث لگتا ہے۔ موجودہ حالات میں جب اپوزیشن مکمل تقسیم اور نیب کے شکنجے سے پریشان ہے۔ حکومت خود آزادانہ اننگز کھیلنے میں بھی ناکام نظر آتی ہے۔ اب تو کپتان کے مخلص دوست بھی نالاں ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ تبدیلی میں مدد کے نام پر خان کے انتہائی مالدار دوست ہر موقع پر اپنا ہاتھ دکھاتے ہیں۔
گندم، آٹا چینی بحران ان کا تازہ سرپرائز تھا۔ ہر روز خان صاحب کا اپنا اعتماد پارہ پارہ ہوتے دیکھنا، خاص لوگوں کی حرکتوں پر شرمندگی اٹھانا اور بعض وزرا کے کام کے بجائے کوہسار مارکیٹ میں لمبی محفلیں جمانے پر محض برسنا کافی نہیں، انہیں خود سے شکوئوں کے بجائے ایکشن کا راستہ اپنانا ہوگا۔ کامیابی کےراستے میں کانٹوں کو مسلنا ہوگا، صفوں میں بیٹھے میر جعفروں کو پہچاننا ہوگا۔
دیرینہ پڑھے لکھے نظریاتی کارکنوں کو موقع دینا ہوگا، دوست نما دشمن کتنے ہی طاقتور ہوں انہیں راستے سے ہٹانا ہوگا۔ سیاسی دشمنوں کے بعد اپنے بروں کو بھی نیب کے حوالےکرنا ہوگا، یقین کریں غیرروایتی اور غیرمعمولی اقدامات ہی ملک کی تقدیر بدلنے، عوام کے دل جیتنے اور نیا پاکستان بنانے کے وعدوں کی تکمیل میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔