12 مارچ ، 2020
اُس نے ایک دلکش مسکراہٹ کے ساتھ مجھے پوچھا ’’یارا جی آپ نے مجھے پہچانا؟ ’’میں نے غور سے اس کے مسکراتے چہرے کو دیکھا۔ آواز جانی پہچانی لگی اور ’’یارا جی‘‘ کے لفظ نے دل کے دروازے پر دستک دے کر کہا کہ یہ کوئی پرانا شناسا ہے لیکن آنکھیں اس چہرے کو پہچان نہ پا رہی تھیں۔
میں نے اس امتحان میں ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے مخاطب سے کہا کہ بھائی جان آپ کی آواز تو اجنبی نہیں لیکن میں چہرہ نہیں پہچان پایا، آپ مجھے معاف کر دیں اور اپنا تعارف کرا دیں۔
میرے مخاطب کی مسکراہٹ قہقہے میں بدل گئی اور اُس نے کہا کہ میں ابراہیم ہوں۔ 17 سال پہلے کابل میں آپ کو پہلی مرتبہ ملا اور کئی بار بطور مترجم اور گائیڈ آپ کے ساتھ افغانستان کے دور دراز علاقوں میں گھوما، اُس وقت میں جوان تھا لیکن حالات نے وقت سے پہلے بوڑھا کر دیا اس لیے آپ پہچان نہیں سکے۔
ابھی اُس کی بات ختم نہیں ہوئی تھی اور میں نے اُسے گلے لگا لیا۔ کئی سال کے بعد وہ مجھے نیو یارک کی کولمبیا یونیورسٹی میں مل رہا تھا اُس کا چہرہ واقعی مرجھا چکا تھا لیکن اُس کی زبان سے ادا ہونے والا لفظ ’’یارا جی‘‘ آج بھی اتنا ہی ترو تازہ اور میٹھا تھا جتنا 2003میں تھا۔ اُس زمانے میں افغانستان جانے والے غیرملکی صحافیوں کو کابل میں وزارتِ خارجہ کی طرف سے ایک تصدیق شدہ مترجم فراہم کیا جاتا تھا اور جگہ جگہ قائم ناکوں پر یہ مترجم وزارتِ خارجہ کی طرف سے جاری کردہ ایک اجازت نامہ دکھا کر صحافیوں کی مشکلات آسان بنایا کرتا تھا۔
ابراہیم نے پشاور کے قریب ایک افغان مہاجر کیمپ میں جنم لیا تھا اس لیے اُردو بھی جانتا تھا لہٰذا ہم جب بھی افغانستان جاتے تو اُسے ڈھونڈ کر اپنے ساتھ نتھی کر لیتے اور وہ ’یارا جی یارا جی‘ کرتا ہوا ہمیں خطرناک علاقوں میں جانے سے روکتا رہتا۔ جب ہم اصرار کرتے تو وہ ہمارے ساتھ چل پڑتا اور ہنستے ہوئے کہتا کہ آپ کے ساتھ مارا گیا تو کچھ شہرت تو ضرور مل جائے گی۔ اُس کی مسکراہٹ ویسے کی ویسے تھی لیکن بال سفید ہو چکے تھے اور آنکھوں پر عینک لگ چکی تھی۔ میں نے پوچھا یارا جی تم کولمبیا یونیورسٹی میں کیا کر رہے ہو؟
ابراہیم نے بتایا کہ کل کمیٹی ٹو پروٹکیٹ جرنلسٹس کے ہیڈ کوارٹر میں آپ کی ٹاک تھی، مجھے ایک مصری صحافی نے آپ کا بتایا تو میں وہاں پہنچ گیا۔ وہاں مجھے سی پی جے کے دفتر میں داخلے کی اجازت نہ ملی، اس دوران بارش شروع ہو گئی تو واپس چلا گیا پھر معلوم ہوا آپ نے سات مارچ کو کولمبیا یونیورسٹی آنا ہے تو میں یہاں پہنچ گیا۔ جب کانفرنس ہال میں داخل ہوا تو آپ کو تقریر کے لیے مدعو کیا جا رہا تھا۔ میں نے آپ کی سب باتیں بڑے غور سے سنیں پھر سوال جواب بھی سنے جیسے ہی لنچ کا وقفہ ہوا تو آپ ہجوم میں گھر گئے بڑی مشکل سے آپ تک پہنچا ہوں۔
میں نے پوچھا کہ امریکہ کب آئے؟ ابراہیم نے کہا کہ آپ کو یاد ہو گا میں آپ کے ساتھ سنڈے ٹائمز کی صحافی میری کولوین کا ذکر کیا کرتا تھا میں نے اُن کے ساتھ بھی کام کیا وہ مجھے کہا کرتی تھی کہ افغانستان میں کافی عرصے تک امن قائم نہیں ہوگا، تم مزید تعلیم حاصل کرو اور مترجم کے بجائے باقاعدہ صحافی بنو۔ میری کولوین نے ابراہیم کی کافی رہنمائی کی اور اُسے نیویارک پہنچا دیا، وہ خود بھی نیو یارک کی رہنے والی تھیں۔ 2012میں میری کولوین شام کے شہر حمص میں بطور صحافی اپنے فرائض سرانجام دے رہی تھیں کہ ایک دن اُنہوں نے سی این این کے اینڈریو کوپر کے شو میں فون پر بتایا کہ بشار الاسد کی فوجیں حمص میں عورتوں اور بچوں کا قتلِ عام کر رہی ہیں۔
اس ٹیلی فون انٹرویو کے چند گھنٹوں کے اندر اندر اسد کی فوج نے میری کولوین کو حمص میں تلاش کیا اور بمباری کے ذریعہ اس بہادر خاتون صحافی کو قتل کر دیا۔ میں نے ابراہیم کو بتایا کہ میری کولوین کے ساتھ میری پہلی ملاقات چیچنیا کے شہر گروزنی میں ہوئی تھی اُن کی ایک آنکھ سری لنکا کے علاقے جافنا میں بمباری کے باعث ضائع ہوئی لیکن اُنہوں نے صحافت نہیں چھوڑی۔ ابراہیم نے پوچھا کہ آپ نے یہاں جو باتیں کیں میں نے غور سے سنیں لیکن آپ نے افغانستان میں اپنی گرفتاری کا ذکر نہیں کیا۔ میں نے اُسے بتایا کہ افغانستان میں تین دفعہ گرفتار ہوا، ایک دفعہ تم بھی میرے ساتھ تھے، چیچنیا میں روسی فوج نے گرفتار کیا، لبنان میں حزب اللہ نے گرفتار کیا، سوات میں پاکستانی طالبان نے پکڑ لیا تھا، کہانی لمبی ہو جاتی یہ سمپوزیم پاکستان کے بارے میں تھا لہٰذا اپنے آپ کو پاکستان تک محدود رکھا۔
ابراہیم نے کہا آپ سے طلبہ و طالبات نے ہر قسم کے سوالات کیے لیکن کسی نے افغانستان پر سوال نہیں کیا، اگر افغانستان میں امن قائم نہ ہوا تو پاکستان میں بھی امن نہیں آئے گا۔ میں نے اُس کی رائے سے اتفاق کیا۔ ہماری باتیں چل رہی تھیں کہ کانفرنس کا اگلا سیشن شروع ہونے لگا جس میں جبران ناصر نے گفتگو کرنا تھی۔ ابراہیم نے کہا کہ آپ آج یا کل مجھے ٹائم دیں میرے کچھ امریکی دوست آپ کو ملنا چاہتے ہیں۔ میں نے بتایا کہ کانفرنس ختم ہوتے ہی سیدھا ائیر پورٹ جاؤں گا اور آج شام کو ہی پاکستان واپسی ہے۔
طے ہوا کہ جبران ناصر کی گفتگو ختم ہو جائے تو آخری سیشن میں اکبر زیدی کی گفتگو سے پہلے ہم دوبارہ کچھ دیر کے لیے گپ لگائیں گے۔ اکبر زیدی صاحب نے
پاکستان کی معیشت پر گفتگو شروع کی تو ابراہیم میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے ہال سے باہر لے آیا۔ معذرت خواہانہ لہجے میں کہنے لگا یارا جی معاف کرنا میں آپ کا زبردستی کا مہمان بنا ہوا ہوں، یہ بتائیں اس مرتبہ آپ نے افغانستان کے الیکشن پر کوئی پروگرام کیوں نہیں کیا؟ میں نے بتایا کہ پاکستانیوں کی اکثریت اپنے مسائل میں اُلجھی ہوئی ہے ہم بار بار اشرف غنی جیسے لوگوں کو پاکستان بلا کر گارڈ آف آنر دیتے ہیں وہ بار بار واپس جا کر پاکستان کو گالیاں دیتے ہیں، 2014میں اُس کی پاکستان نے بھرپور مدد کی 2019میں اُس نے الزام لگا دیا کہ پاکستان ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کی مدد کر رہا ہے۔ پاکستان نے طالبان اور امریکہ کو قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا لیکن ایسا لگتا ہے کہ پاکستان نے کوئلوں کی دلالی کی ہے اس لیے اب افغانستان جانے کو دل نہیں چاہتا۔
اللہ کرے افغان قوم اپنے معاملات خود طے کر لے۔ ابراہیم نے کہا یارا جی پاکستان میں کچھ لوگ اشرف غنی کی بڑی حمایت کرتے ہیں لیکن عمران خان کی مخالفت کرتے ہیں، کہتے ہیں عمران خان سلیکٹڈ ہے اور اشرف غنی الیکٹڈ۔ جب ہم امریکہ میں بیٹھ کر اشرف غنی کے پاکستانی حامیوں کی باتیں سنتے ہیں تو بڑا عجیب لگتا ہے۔
ساری دنیا نے دیکھا کہ آدھا افغانستان اشرف غنی کو صدر کہتا ہے، آدھا افغانستان عبداللہ عبداللہ کے ساتھ ہے اور طالبان کا صدر مُلا ہیبت اللہ ہے لیکن کچھ پاکستانی اشرف غنی کو الیکٹڈ پریذیڈنٹ قرار دے کر ہمارے اندرونی تنازع میں فریق بن رہے ہیں اُنہیں ہمارے معاملات میں مداخلت کا کوئی حق نہیں۔
ابراہیم نے دو تین پاکستانی دوستوں کا نام لے کر کہا کہ پاکستان جا کر ان سے کہنا کہ یارا جی اگر ایک سو فیصد سلیکٹڈ شخص اشرف غنی آپ کا ہیرو ہے تو پھر آپ عمران خان کو سلیکٹڈ کہنا بند کر دیں، یارا جی یہ منافقت ہے، ایسے نہیں چلے گا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔