کیا کورونا وائرس کیخلاف ملیریا کی دوا واقعی کارآمد ہے؟

چینی ماہرین نے مختلف ادویات اور طریقہ کار کے تجربات کیے جس کے بعد انہیں ملیریا کے علاج میں استعمال ہونے والی دوا کلوروکوین کے حوصلہ افزا نتائج موصول ہوئے— فوٹو: فائل

کراچی: چینی ماہرین صحت اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ملیریا کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی معروف ادویات 'کلوروکوئین' اور 'ہائیڈرو آکسی کلوروکوئین' کراچی سے یا تو غائب ہوگئی ہیں یا اگر کہیں دستیاب ہیں تو انتہائی مہنگی قیمت پر فروخت کی جارہی ہیں۔

ایک سروے کے مطابق شہر کی اکثر فارمیسی اور میڈیکل اسٹورز پر ملیریا کے علاج کی ادویات خاص طور پر کلوروکوین کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔

ایک ملٹی نیشنل فارماسیوٹیکل کمپنی کی تیار کردہ ملیریا کے علاج کی مشہور دوا تو بالکل ہی نایاب ہے جبکہ مقامی ادویہ ساز کمپنیوں کی بنائی ہوئی ادویات بھی بہت مشکل سے مل رہی ہیں۔

معروف ماہر امراض خون پروفیسر ڈاکٹر طاہر شمسی کے مطابق چین میں کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد چینی ماہرین صحت نے مختلف ادویات اور طریقہ کار کے تجربات کیے جس کے بعد انہیں ملیریا کے علاج میں استعمال ہونے والی دوا کلوروکوین کے حوصلہ افزا نتائج موصول ہوئے۔

ڈاکٹر طاہر شمسی کا کہنا تھا کہ کلوروکوئین نامی دوا کو دیگر اینٹی وائرل ادویات کے ساتھ ملا کر استعمال کرنے کے اچھے نتائج ملے ہیں جس کے بعد امریکی صدر نے بھی اس دوا کو کورونا وائرس میں مبتلا مریضوں پر استعمال کرنے کے لیے اپنے ماہرین کو ہدایت کی ہے۔

اسی طرح حکومت پنجاب کی بنائی ہوئی ایک اعلٰی سطح کی کمیٹی، جس کے ممبران میں کنگ ایڈورڈ یونیورسٹی اور پنجاب کے دیگر معروف طبی اداروں کے ماہرین شامل ہیں، نے بھی کورونا وائرس کے ایسے مریض جنہیں گھروں پر اپنے آپ کو آئسولییٹ کرنے کی ہدایت کی گئی ہیں انہیں کلوروکوئین نامی دوا استعمال کرنے کا مشورہ دیا ہے۔

لیکن ماہرین صحت کا یہ بھی کہنا ہے کہ کلوروکوئین کا ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر استعمال خاص طور پر ایسے مریضوں میں جنہیں دل کا عارضہ لاحق ہو یا وہ بچے میں شدید خطرے کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

معروف فارماسسٹ یاسر ہاشمی کے مطابق کلوروکوئین کو "اوور دی کاؤنٹر" دوا یعنی عام پیناڈول یا ڈسپرین کی طرح خریدا جا رہا ہے جس کی وجہ سے اس کی قلت پیدا ہوگئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس دوا کو صرف ڈاکٹر کے مشورے سے استعمال کرنا چاہیے کیونکہ اس کے سائیڈ ایفیکٹ اتنے زیادہ ہیں کہ مریض کی زندگی خطرے میں پڑسکتی ہے۔

دوسری جانب اس دوا کی قلت پیدا ہونے کے نتیجے میں ملیریا کے مریضوں کی جان بھی خطرے میں پڑ گئی ہے کیونکہ پاکستان میں سالانہ ہزاروں لوگ ملیریا کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں جن میں سے سیکڑوں جاں بحق ہو جاتے ہیں۔