29 مارچ ، 2020
ایک ایسے وقت میں جب دنیا کورونا وائرس سے بری طرح متاثر دکھائی دیتی ہے اور کھیلوں کی دنیا برف کی طرح جم چکی ہے، پاکستان میں کھیلوں کے سب سے بڑے ادارے “ پی سی بی” کے آئین کے بارے میں ملک بھر کے سابق زونل عہدیدار ان کی جانب سے تحفظات اور معاملات عدالت میں اب بھی موجود ہیں۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے آئین کے پیراگراف “7”کے مطابق گورننگ بورڈ چیئرمین کا تین سال کے لیے انتخاب کرے گا۔ موجودہ چیئرمین احسان مانی اگست 2018ء میں 2014ء کے آئین کے مطابق منتخب ہوئے۔ اگر چہ 1995ء کے بعد بورڈ کے آئین میں چوتھی بار تبدیلیاں کی گئیں ، تاہم چیئرمین کے انتخاب کا طریقہ کار اب بھی یہی ہے، البتہ بورڈ میں مینجنگ ڈائریکٹر کی حیثیت سے شامل ہونے والے وسیم خان اب چیف ایگزیکٹیو ضرور بن گئے ہیں۔ دوسری طرف گورننگ بورڈ سے 4 ستمبر 2018ء کو منتخب ہونے والے احسان مانی کے انتخاب پر پہلا سوال وزیر اعظم عمران خان کے 20اگست 2018ء کے ٹوئیٹ سے سامنے آیا تھا، جب انھوں نے لکھا “ میں نے احسان مانی کو چیئر مین پی سی بی مقرر کیا ہے”۔
وقت بدلہ پی سی بی میں احسان مانی کے آنے کے بعد تبدیلیاں بھی آئیں ، کئی پرانے لوگ گئے، نئے چہروں کی آمد ہوئی، البتہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے نئے آئین کے مطابق آج بھی گورننگ بورڈ کے اراکین کا انتظار ہے، جس کے تحت پیڑن ( وزیر اعظم ) کے دو نمائندے احسان مانی اور اسد علی خان کی شکل میں تو موجود ہیں۔
البتہ تین کرکٹ ایسوسی ایشن اور چار آزاد ارکان جن میں ایک خاتون بھی شامل ہے، ابھی تک جلوہ گر نہیں ہو سکے۔ دوسری جانب پاکستان کرکٹ بورڈ میں ریجن اور ڈپارٹمنٹ ختم ہوگئے، مگر گورننگ بورڈ میں لیفٹنٹ جنرل (ر) مزمل حسین (واپڈا)، عمران فاروقی (سوئی سدرن گیس)، ایاز بٹ ( خان ریسرچ لیبارٹریز)، شاہ ریز روکڑی ( لاہور)، شاہ دوست ( کوئٹہ) اور کبیر احمد خان ( فاٹا) اب بھی براجمان ہوتے ہیں۔ اس بارے میں ڈائریکٹر میڈیا سمیع الحسن برنی سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے بتایا کہ اگست 19 اگست 2019ء کو جو نئے آئین کی کاپی موصول ہوئی اس کے مطابق موجودہ اراکین نئے گورننگ بورڈ کی تشکیل تک کام کرینگے۔
احسان مانی جن کی عمر 75 برس ہے، بطور چیئرمین ان کے تقرر کو 17ماہ ہوچکے ہیں ، سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ 4ستمبر 2018ء کو وہ جس گورننگ بورڈ سے ووٹ لے کر چیئرمین بنے، وہ نمائندے ریجنز سے منتخب ہوکر آئے تھے اور آئی سی سی کا مستقل ممبر بورڈ کے لیے قواعد نمایاں ہیں کہ وہ منتخب نمائندے ہوں۔ تاہم اب چھ ٹیمیں فرسٹ کلاس کرکٹ کھیل رہی ہیں تاہم ریجن اور ایسوسی ایشن کے مستقبل کیا ہوگا؟
کچھ لوگ یہ بھی سوال کر رہے ہیں ، کہ قانونی پیچیدگیوں کو پس پشت رکھ دیا جائے، تو کیا احسان مانی ایڈہاک سطح پر بورڈ چلا رہے ہیں ؟ ریجن ہیں نہیں ، ڈپارٹمنٹ بند ہوگئے، تو ان کے نمائندے گورننگ بورڈ میں جن فیصلوں کی منظوری دے رہے ہیں، کیا وہ مستقبل میں چیلنج ہو سکتے ہیں؟
18جولائی 2019ء کو آئی سی سی لندن میں زمبابوے کرکٹ کو معطل کر چکا ہے، زمبابوے کو جموری انداز میں بورڈ چلانے میں ناکامی پر اس صورت حال کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
یاد رہے اس اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی احسان مانی اور وسیم خان کر رہے تھے، یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آئی سی سی پورے سال کی آمدنی کا مخصوص حصہ رکن ممالک کو دیتا ہے۔ پاکستان کو اس سال گیارہ اعشاریہ پانچ ملین ڈالر دو اقساط میں ملے۔ آئی سی سی کی رکن ممالک کو یہ رقم آڈٹ اکاؤنٹس کی منظوری کے ساتھ مہیا کی جاتی ہے۔ احسان مانی کے آنے کے بعد کوئٹہ میں گورننگ بورڈ اجلاس نعمان بٹ تنازع کی وجہ سے 2017ء اور 2018ء کے آڈٹ اکاؤنٹس کی منظوری میں تاخیر کی وجہ سے معاملہ التواء کا شکار ہوا تھا۔
آئی سی سی میں پاکستان کی لابنگ پر متضاد آراء پائی جاتی ہیں۔ احسان مانی کے چیئر مین بننے کے بعد بھارت کے ساتھ عدالتی محاذ پر مثبت نتائج حاصل نہ کرنے پر مالی طور پر بورڈ کو خسارے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ سب جانتے ہیں ، آئی سی سی ایونٹس کی میزبانی مستقبل قریب میں پی سی بی کے حصے میں آنے کا زیادہ امکان دکھائی نہیں دیتا پھر پی سی بی کا زیادہ انحصار آئی سی سی کی رقم پر ہی ہے۔
ایسے میں سوال یہ ہے کہ اگر آئی سی سی نے احسان مانی کی سربراہی میں کام کرنے والے گورننگ بورڈ کی اہیلت پر سوال اٹھا دیا،تو آئی سی سی کے آرٹیکل 2.7 آزاد الیکشن اور منتخب ایگزیکٹو بورڈ کی شرط ایک بڑی آزمائش بن کر مشکلات کا سبب بن سکتی ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔