01 اپریل ، 2020
سپریم کورٹ نے آئندہ جیل جانے والے نئے قیدیوں کے لیے کورونا ٹیسٹ لازمی قرار دے دیتے ہوئے حکم دیا کہ اگر جیل میں قید کسی فرد میں کورونا کی علامات ہوں یا ٹیسٹ پازیٹو آئے تو اسے قرنطینہ میں رکھا جائے۔
سپریم کورٹ میں انڈر ٹرائل قیدیوں کی ضمانت پر رہائی سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں ہوئی۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سندھ ہائیکورٹ میں بھی کسی بادشاہ نے شاہی فرمان جاری کیا، لیکن ملک میں جو بھی کام کرنا ہے قانون کے مطابق کرنا ہوگا، ایسا نہیں ہوسکتا کہ کوئی خود کو بادشاہ سمجھ کرحکم جاری کرے۔
انہوں نے کہا کہ کس قانون کےتحت ملزمان اورمجرموں کو ایسے رہا کیا جا سکتا ہے، ملزمان کو پکڑنا پہلے ہی ملک میں مشکل کام ہے کیونکہ جرائم پیشہ افراد کو کوئی مستقل ٹھکانہ نہیں ہوتا۔
جسٹس گلزار احمد نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ پولیس کورونا کی ایمرجنسی میں مصروف ہے، ان حالات میں جرائم پیشہ افراد کو کیسےسڑکوں پر نکلنے دیں؟
ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں ملزمان کی ضمانت ہوتے ہی ڈکیتیاں شروع ہو گئیں، کراچی میں ڈیفنس کا علاقہ ڈاکوؤں کےکنٹرول میں ہے، ڈیفنس میں رات کو 3 بجے ڈاکو کورونا مریض کے نام پر آتے ہیں، کورونا مریض کی چیکنگ کے نام پر ڈاکو گھروں کا صفایا کر رہے ہیں۔
جسٹس گلزار احمد نے مزید کہا کہ جب سے ہائیکورٹ سے ضمانت ہوئی ڈکیتیاں بڑھ رہی ہیں، زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر ہی فیصلہ کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ کرپشن کرنے والوں کا دھندا لاک ڈاؤن سے بند ہو گیا، سندھ میں کرپشن کے ملزمان کو بھی رہا کر دیا گیا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سندھ کے معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کرپشن کرنے والوں کو روز پیسہ کمانے کا چسکا لگا ہوتا ہے، کرپشن کی بھوک رزق کی بھوک سے زیادہ ہوتی ہے، کرپشن کرنے والے کو موقع نہیں ملےگا تو وہ دیگرجرائم ہی کرے گا۔
جسٹس قاضی امین نے کہا کہ جیلیں خالی کرنے سے کورونا وائرس ختم نہیں ہو جائے گا، قیدیوں کے تحفظ کے لیے قانون میں طریقہ کار موجود ہے۔
جسٹس سجاد علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ قانون کہتا ہے متاثرہ قیدیوں کو قرنطینہ میں رکھا جائے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ جیلوں میں وائرس پھیلا تو الزام سپریم کورٹ پر آئےگا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ جیلوں میں کورونا وبا پھیل گئی تو کوئی یہ نہیں کہے گا کہ حکومت نے کچھ نہیں کیا، لوگ کہیں گےکہ سپریم کورٹ نے انڈر ٹرائل قیدی رہا کرنے سے روکا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نےقانون کو دیکھنا ہے،کسی الزام کی پروا نہیں، مجرموں کوچھوڑ دیا گیا تو ہمارے پاس اتنی پولیس نہیں کہ انہیں دوبارہ پکڑ سکے۔
صدرسپریم کورٹ بارقلب حسن نے کہا کہ اس وقت پاکستان کی 114 جیلوں میں ڈاکٹروں کی 108 آسامیاں خالی ہیں اور ڈاکٹرزکی کوئی ٹیم ابھی تک جیلوں میں نہیں گئی۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ جیلوں میں 57 ہزار 742 قیدیوں کی گنجائش ہے جب کہ 77 ہزار 275 لوگ بند ہیں، جیلوں میں سزا یافتہ قیدیوں کی تعداد 25 ہزار456 جب کہ انڈر ٹرائل قیدیوں کی تعداد 48 ہزار سے زیادہ ہے۔
قلب حسن نے کہا کہ جیلوں میں 90 نوزائیدہ بچے بھی اپنی ماؤں کے ساتھ موجود ہیں، جیلوں میں بےیارومددگار لوگوں کا اللہ کے بعدعدالتیں ہی آسرا ہیں، کورونا معاملے پرحکومت نے ابھی تک جیل والوں کےلیے کچھ نہیں کیا، عدالت سےاستدعا ہے کہ قیدیوں کےحقوق کا دفاع کریں۔
اٹارنی جنرل نے معمولی نوعیت کے مقدمات میں انڈرٹرائل قیدیوں کو رہا کرنے کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ 55 سال سے زائدعمر کے انڈر ٹرائل قیدیوں کو ضمانت دی جائے، کم سن انڈر ٹرائل قیدیوں کو بھی ضمانت دی جائے۔
انہوں نے اپنی تجویز میں مزید کہا کہ کرپشن میں ملوث انڈر ٹرائل قیدیوں کو رہا نہ کیا جائے، منشیات کے انڈر ٹرائل قیدیوں کو بھی رہا نہ کیا جائے، عورتوں اور بچوں پرتشدد کے انڈر ٹرائل قیدیوں کو بھی رہا نہ کیا جائے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سابقہ ریکارڈ یافتہ انڈر ٹرائل قیدیوں کو رہا نہ کیا جائے لیکن تین سال قید کی سزا کے انڈر ٹرائل قیدیوں کو رہا کیا جائے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مجرموں کے تو گھربھی نہیں ہوتے، انہیں جیل سے کیوں نکالنا چاہتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے آئندہ جیل جانے والے نئے قیدیوں کے لیے کورونا ٹیسٹ لازمی قرار دے دیا اور حکم دیا کہ اگر کسی میں کورونا علامات ہوں یا ٹیسٹ پازیٹو آئے تو اسے قرنطینہ میں رکھا جائے۔
سپریم کورٹ نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے کورونا وائرس پر رپورٹ طلب کرلی اور کہا کہ یہ بھی بتایا جائے کہ اب تک کیا اقدامات کیے گئے ہیں۔
عدالت نے ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کو دیے گئے حفاظتی لباس اور کٹس کی تفصیلات بھی طلب کر لیں، بتایا جائے کہ ہمارے پاس کل کتنے وینٹی لیٹرز ہیں۔
سپریم کورٹ نے جیلوں میں گنجائش اور موجود قیدیوں کی تفصیلات بھی طلب کر لیں اور حکم دیا کہ آگاہ کیا جائے جیلوں میں کتنے ملزمان ہیں اور کتنے مجرمان ہیں۔
عدالت عظمیٰ نے خواتین اور 60 سال سے بڑی عمر کے قیدیوں کی تفصیلات بھی جمع کرانے کا حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ قیدیوں کی رہائی کی قانونی حیثیت پر آئندہ سماعت پر بحث ہو گی۔
سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ یقینی بنایا جائے کورونا سے متاثرہ کوئی شخص جیل میں داخل نہ ہو سکے، اس کے علاوہ عدالت نے جیلوں میں ڈاکٹرز کی خالی آسامیوں پر بھی حکومت سے جواب مانگ لیا۔
سپریم کورٹ نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سے 6 اپریل تک تفصیلی جوابات طلب کر لیے۔
یاد رہے کہ گزشتہ سماعت پر سپریم کورٹ نے انڈر ٹرائل قیدیوں کی رہائی سے متعلق تمام ہائیکورٹس کے حکم نامے معطل کرتے ہوئے تمام صوبوں اور گلگت بلستان کے اٹارنی جنرلز، چیف سیکرٹریز کو نوٹسز جاری کیے تھے۔