02 اپریل ، 2020
کورونا وائرس کے باعث سب سے پہلے دنیا بھر میں اسکولوں کو بند کردیا گیا تاکہ اس کے حملے سے بچے محفوظ رہیں لیکن اس کے باوجود بھی بچوں کے متاثر ہونے کے کئی کیسز سامنے آئے ہیں۔
اب تک کے مطالعے اور تجزیے کے بعد طبی ماہرین کا کہنا ہے ہزاروں افراد کی جان لینے والا کورونا وائرس بڑوں کے مقابلے میں بچوں پر کم متاثر ہوتا ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ یہ بچوں کے لیے خطرناک نہیں ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی میں ماہر وبا و انفیکشن اینڈریو پولارڈ کا کہنا ہے کہ ابتداء میں یہ سمجھا جارہا تھا کہ یہ وائرس بچوں کو متاثر نہیں کرتا لیکن ایسا نہیں ہے، اس کی علامات بڑوں کی طرح بچوں میں بھی پائی جاتی ہیں۔
چینی کے ایک مرکز کے اعداد و شمار کے مطابق 20 فروری تک کووڈ-19 کے 72 ہزار 314 کیسز سامنے آئے جن میں سے 19 سال سے کم عمر والوں میں صرف 2 فیصد اس کی شکایت پائی گئی۔
امریکی مطالعے کے مطابق 508 کیسز میں سے کسی بچے کی ہلاکت رپورٹ نہیں ہوئی، اس اعتبار سے وائرس سے بچوں کی شرح اموات ایک فیصد سے بھی کم بتائی جاتی ہے۔
اگرچہ کورونا وائرس بچوں کے لیے جان لیوا ثابت نہیں لیکن پھر بھی چین سمیت لندن اور بیلجیئم سے ایسی ہلاکتیں سامنے آئی ہیں جن کی عمر 12،13 اور 14 تھی۔
ایسے کم عمر جو کورونا میں مبتلا تھے، انہیں سانس لینے میں دشواری یعنی (اے آر ڈی ایس) کی شکایت پائی گئیں، یہ وہ کیسز ہیں جو بالغ ہیں جب کہ 9 سال سے کم عمر سے والے بچوں میں یہ تناسب ایک فیصد پایا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ انفیکشن کے باوجود ان میں یہ علامات پائی نہیں جاتی۔
ساؤتھمپٹن یونیورسٹی کے ایک اعزازی مشیر برائے اطفال گراہم رابرٹس نے اس حوالے سے وضاحت پیش کی کہ کووڈ-19 میں مبتلا بچوں میں نزلہ زکام، کھانسی کی شکایت پائی جاتی ہیں جیسے ٹھنڈ لگنے کی صورت میں کیفیت ہوتی ہے لیکن یہ وائرس ان کے پھیپھڑوں تک نہیں جاتا اور نہ ہی انہیں سانس لینے میں تکلیف پیدا کرتا ہے ان کے لیے نمونیہ جان لیوا ثابت ہے لیکن کووڈ-19 نہیں۔
ڈاکٹر اینڈریو پولارڈ کا کہنا ہے کہ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس وقت سے ایک حد تک کی عمر تک اسے کسی بھی قسم کے انفیکشن سے بچاؤ کے لیے حفاظتی ٹیکے لگائے جاتے ہیں جس کے باعث ان کی قوت مدافعت انفیکشن سے لڑنے کی طاقت رکھتی ہے جب کہ جو بچے 12 سال کی عمر سے بڑھ جاتے ہیں انہیں کسی ٹیکوں کے مرحلے سے گزرنا نہیں پڑتا تاہم وہ اس کی حفاظت خوراک سے ہی کرسکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ بہت ہی کم بچوں میں کووڈ 19 میں شدید انفیکشن ہوتا ہے، اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وائرس سے نمٹنے کے لیے ان کے بنیادی طریقے مختلف ہیں۔
چینی محققین کے مطالعے میں کہا گیا ہے کہ بچوں میں امراض قلب اور سانس لینے کی شکایت کم پائی جاتی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کورونا انفیکشن سے بڑے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور بچے محفوظ ہوجاتے ہیں۔
تحقیق کے مطابق کورونا وائرس نومولود بچوں پر بھی حملہ کرسکتا ہے جس کا ایک کیس لندن اور دوسرا چین سے سامنے آچکا ہے۔
اگرچہ یہ بات سامنے نہیں آسکی ہے کہ جب بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے وہ تب اس سے متاثر ہوتا ہے یا پھر پیدائش کے بعد لیکن جب نومولود بچہ متاثر ہوتا ہے تو ماں کے ٹیسٹ نتائج بھی مثبت آتے ہیں۔
ڈاکٹر رابرٹ کا کہنا ہے کہ بچے ایک مرحلے میں آکر بڑوں میں تبدیل ہونا شروع ہوجاتے ہیں، ہم نو عمر وں کے مقابلے میں بالغ بچوں کے مدافعتی نظام میں پختگی دیکھتے ہیں جو وائرس پر قابو پانے میں کم موثر ہے، اس لیے ہمیشہ یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ ہم اس وائرس کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں، ہم واقعتاً یہ سمجھنے کی کوشش کے سلسلے میں قیاس آرائیاں کر رہے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ بچوں کو کورونا وائرس متاثر نہیں کرتا اس لیے ہمیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہےمگر یہ وائرس کسی بھی ایک متاثرہ شخص سے صحتمند شخص کو براہ راست رابطے یاچھنکنے یا کھانسنے کی صورت میں منہ سے نکلنے والے باریک ترین قطروں سے لگ سکتا ہے۔
اس سے ثابت ہوتا ہے اگر کوئی بچہ وائرس سے متاثر ہے مگر صحتمند ہے پھر بھی وہ اپنے قریب لوگوں کو متاثر کر سکتا ہے۔
برطانوی ماہرین کے مطابق بچوں کے کورونا وائرس سے متاثر ہونے کے کیسز سامنے نہ آنے کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اس وقت بیشتر ممالک میں بچوں کے کورونا ٹیسٹ کیے نہیں جا رہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ بچوں کو یہ متاثر ہی نہیں کرتا۔
بچوں میں کیسز نہ پھیلنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اسکول بند ہیں اور جو نوجوان یا بڑے افرادمتاثر ہوئے انہیں یہ وائرس سماجی محفلوں اور دفاتر سے لگا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں ہو سکتا ہے کہ جب یہ متاثرہ افراد وائرس کی موجودگی میں بچوں کے ساتھ وقت گزاریں گے تو ہو سکتا ہے کہ ہمیں بچوں میں بھی وائرس کے کیسز نظر آئیں۔
بچوں کو آگاہی دینے کے حوالے سے ساؤتھمپٹن چلڈرنز اسپتال میں بچوں کے امراض کے ماہر مشیر سنجے پٹیل کہتے ہیں کہ کووڈ-19 سے متعلق بہت ساری افواہیں رونما ہوچکی ہیں، اس امر میں ضروری یہ ہے کہ والدین بچوں کو بتائیں کہ یہ چھوٹے بچوں کے لیے جان لیوا نہیں ہے تاکہ بچے اس کے خوف میں مبتلا نہ ہوں۔
ڈاکٹر پٹیل کا کہنا تھا کہ بچے جب خوف کا شکار ہوجاتے ہیں تو ان کی دماغی صحت اور جسمانی قوت دونوں متاثر ہوتی ہے جس کے بارے میں وہ بیان نہیں کر پاتے۔