02 اپریل ، 2020
چین میں کورونا وائرس پر اب قابو پایا جا رہا ہے یہی وجہ ہے کہ احتیاط کے طور پر چین کے شہر شینزن میں بلی اور کتے کا گوشت کھانے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے والا کورونا وائرس چین کے شہر ووہان سے پھیلنا شروع ہوا تھا جس کے باعث پورے چین میں متاثرین کی تعداد 80 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے ۔
چین میں تیزی سے کورونا وائرس کے کیسز سامنے آنے کے بعد کچھ سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ یہ وائرس جانوروں سے انسان میں منتقل ہوتا ہے یعنی جو افراد، چمگادڑ، چوہوں، سانپ اور کتوں کا گوشت کھاتے ہیں ان پر کورونا وائرس کے حملے کا شبہ ظاہر کیا گیا تھا۔
ایسے میں شہر شینزن کے حکام کا کہنا ہے کہ کتے اور بلی کا گوشت کھانے پر پابندی عائد کی جا رہی ہے جس کا اطلاق یکم مئی سے ہو گا۔
حکام کا کہنا تھا کہ بلی اور کتے پالتو جانور بھی ہیں جن سے انسان کو قریبی لگاؤ ہوتا ہے، ایسی صورت میں ان کا گوشت کھانا بھی مناسب نہیں ہے اس کے بدلے مچھلی جھینگے کھانے کی عادت ڈالی جا سکتی ہے اس سے کوئی خطرہ بھی نہیں ہے۔
اس اقدام پر ہیومن سوسائٹی انٹرنیشنل برائے محکمہ وائلڈ لائف کے نائب صدر کا کہنا ہے کہ شینزن دنیا کا وہ پہلا شہر ہے جس نے عالمی وبا کورونا سے سبق سیکھتے ہوئے سنجیدگی سے قدم اٹھایا ہے۔
نائب صدر کا کہنا تھا کہ وبائی بیماری سے بچنے کے لیے کچھ تبدیلیاں درکار ہیں اور یہ ان میں سے ایک ہے، اس تجارت اور جنگلی حیات کی کھپت کو روکنے کے لیے شینزن کا جرات مندانہ اقدام دنیا بھر کی حکومتوں کے لیے مثال ہے کہ انہیں بھی اس کی تقلید کرنی چاہیے۔
دوسری جانب چین کے مختلف شہروں میں کورونا وائرس کے خاتمے کے بعد ایک بار پھر انسانی غذائی ضروریات کے لیے چمگادڑ، پینگولین اور کتوں کی فروخت شروع کر دی گئی ہے۔
گزشتہ رپورٹ کے مطابق چین میں گوشت مارکیٹ اسی طرح سے اپنا کام کر رہی ہے جس طرح کورونا وائرس کے پھیلاؤ سے قبل یہاں جانوروں کے گوشت کی خریدو فروخت کا کام کیا جا رہا تھا۔