Time 02 اپریل ، 2020
پاکستان

لیک ویڈیو نشر کرنے پر چیئرمین نیب نے غصے میں میر شکیل کوگرفتار کروایا: اعتزاز احسن

ڈی جی نیب لاہور کی جعلی ڈگری کا معاملہ بھی جیو نیوز نے اٹھایا تھا اس وجہ سے وہ میر شکیل الرحمان سے ناراض ہیں: بیرسٹر اعتراز احسن۔ فوٹو: فائل

جنگ اور جیو کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمان کے وکیل بیرسٹر اعتزاز احسن کا کہنا ہے کہ ویڈیو لیک کیس نشر کرنے پر چیئرمین نیب نے میر شکیل الرحمان کو غصے میں گرفتار کروایا۔

لاہور ہائیکورٹ میں میر شکیل الرحمان کی رہائی کی درخواست پر سماعت جسٹس سردار احمد نعیم پر مشتمل دو رکنی بنچ نے کی۔

میر شکیل الرحمان کے وکیل اعتزاز احسن نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میر شکیل الرحمان کو شکایت کی تصدیق کی سطح پر گرفتار کیا گیا جو کہ غیر قانونی ہے، میر شکیل الرحمان کو کوئی سوالنامہ بھی فراہم نہیں کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ میر شکیل الرحمان کے خلاف 34 سال پرانا کیس کھولا گیا، 20 سال نیب نے بھی کچھ نہیں کیا، نیب کا یہ کیس نہیں بنتا۔

میر شکیل الرحمان کے وکیل نے کہا کہ سارا معاملہ دستاویزی ہے اور یہ دستاویزات ایل ڈی اے کے ریکارڈ پر موجود ہے، میر شکیل الرحمان کو پلاٹ الاٹمنٹ میں دیا گیا رعایت کوئی غیر آئینی اور غیر قانونی امر نہیں ہے، میر شکیل الرحمان کی یہ پرائیویٹ سول ٹرانزیکشن تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ میر شکیل الرحمان کوچیئرمین نیب نے غصہ میں گرفتار کروایا، معاملہ ایک ویڈیو لیک کیس کو نشر کرنے کا ہے جس کا لکھ دیا ہے یہاں بیان نہیں کرنا چاہتا، ڈی جی نیب لاہور کی جعلی ڈگری کا معاملہ بھی جیو نیوز نے اٹھایا اس وجہ سے وہ میر شکیل الرحمان سے ناراض ہیں۔

اعتراز احسن نے کہا کہ میر شکیل الرحمان 54 پلاٹوں کا الاٹی نہیں ہے، اصل مالکان ایگزمپشن پر زمین حاصل کرتے ہیں، نیب نے میر شکیل کو گرفتار کرتے ہوئے 2019ء کی بزنس مین پالیسی کی خلاف ورزی کی۔

اعتراز احسن نے کہا کہ اراضی ایک شخص کو نہیں بلکہ حاکم علی، ہدایت علی سمیت 7 بہن بھائیوں کو زمین الاٹ کی گئی تھی، میر شکیل الرحمان 33 کنال زمین جو نہر پر واقع ہے پہلے سے اس کا مالک تھا، 21 کنال زمین ساتھ ملا لی۔

جسٹس سردار احمد نعیم نے استفسار کیا کہ حاکم علی وغیرہ کی زمین کہاں کہاں واقع تھی، جس پر شکیل الرحمان کے وکیل امجد پرویز ایڈوکیٹ نے کہا کہ جوہر ٹاؤن نہر کنارے، ایکسپو سنٹر اور سوک سنٹر کے پاس زمینیں تھیں۔

جسٹس سردار نعیم نے پوچھا کہ زمین ایکوائر کرنے کا ایوارڈ کب ہوا؟ جس پر نیب کے وکیل نے کہا کہ 1986ء کو محمد علی کے نام پر ایوارڈ جاری ہوا۔

اعتراز احسن کی جانب سے استدعا کی گئی کہ میر شکیل الرحمان کو 12 مارچ کو گرفتار کرنے کا اقدام نیب کے دائرہ اختیار سے تجاوز قرار دے کالعدم کیا جائے، احتساب عدالت کا میر شکیل الرحمان کا جسمانی ریمانڈ دینے حکم غیر قانونی قرار دے کر کالعدم کیا جائے اور انہیں ضمانت پر رہا کیا جائے۔

درخواست میں یہ استدعا بھی کی گئی کہ میر شکیل الرحمان کی نیب میں گرفتاری اور حراست کو غیر قانونی قرار دے کرمقدمہ سے ڈسچارج کیا جائے، میر شکیل الرحمان زیادہ عمر کے ہیں اس لئے ضمانت پر رہا کیا جائے۔

اعتزاز احسن کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے کیس کی سماعت 7 اپریل تک ملتوی کرتے ہوئے آئندہ سماعت پر نیب پراسیکیوٹر کو دلائل دینے کی ہدایت کی۔

نیب کی طرف سے اسپیشل پراسکیوٹر سید فیصل رضا بخاری نے عدالت میں جواب جمع کروا دیا۔

خیال رہے کہ نیب نے 34 سال پرانے پراپرٹی کیس میں جنگ اور جیو کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الرحمان کو 12 مارچ کو لاہور سے گرفتار کیا تھا جسے ان کی اہلیہ شاہینہ شکیل نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھی چیلنج کیا تھا

مزید خبریں :