بلاگ
Time 10 اپریل ، 2020

کورونا کے حوالے سے ایک خط

فوٹو فائل—

’’میں ایک مدت سے آپ کے کالم پڑھ رہا ہوں اور آپ کا مداح ہوں۔ گزشتہ چند کالم آپ نے کورونا وائرس کے حوالے سے لکھے۔ میں اِس خط کے ذریعے اِسی وبائی مرض سے مرنے والے پہلے فرد کی کہانی عوام تک پہنچانا چاہتا ہوں۔ اس کہانی سے ہمیں اپنے بےاحتیاطی پر مبنی رویوں کا ادراک ہوگا۔

یہ کہانی مردان کے نواحی گائوں منگاہ کے 50سالہ ڈسپنسر سعادت خان کی ہے۔ وہ اپنے دو دوستوں کے ہمراہ عمرہ کر کے نو مارچ کو واپس وطن پہنچا۔ اُس وقت اُس کی صحت بالکل ٹھیک تھی۔ کورونا کی کوئی علامت ظاہر نہیں ہوئی تھی۔ واپسی پر اُس نے ایک بڑی دعوت کا اہتمام کیا جس میں قریبی رشتہ دار اور تمام تعلق دار بلائے۔ 

لوگ مبارکباد دینے بھی گھر پر آتے جاتے رہے، گلے ملتے رہے۔ وہ لوگوں کو اپنے ہاتھ سے آبِ زم زم اور کھجوریں پیش کرتا رہا۔ کچھ دوستوں نے اُس کی دعوتیں بھی کیں۔ اسے اپنے کم سن پوتوں سے بڑی محبت تھی۔ 

دونوں اُس سے چمٹے رہتے تھے۔ اس نے ایک دن اپنے کلینک میں مختلف مریضوں کا بھی معائنہ کیا۔ اسے پندرہ مارچ کو بخار، کھانسی اور زکام کی شکایت ہوئی چونکہ میڈیکل کی فیلڈ سے تعلق تھا، اس لئے ادویات خود ہی لے لیں۔ 

وہ اسے معمول کا نزلہ، زکام سمجھا مگر بخار کی شدت دیکھ کر اگلے دن مردان کے ہیڈ کوارٹر اسپتال میں چلا گیا۔ ڈاکٹر کو شک ہوا، اُس نے کورونا وائرس کے ٹیسٹ کے لئے طبی نمونے لے کر نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ اسلام آباد کو بھجوا دیے۔ 

ابھی مردان میں کورونا کے ٹیسٹ شروع نہیں ہوئے تھے۔ ڈاکٹر نے اسے فوری طور پر قرنطینہ وارڈ میں داخل ہونے کا کہا مگر وہ واپس چلا گیا کہ ٹیسٹ کےنتائج دو دن بعد آنے ہیں، اسی دوران طبیعت زیادہ خراب ہو گئی۔ 18مارچ کو ٹیسٹ کا نتیجہ بھی مثبت آ گیا۔ ضلعی انتظامیہ نے اسے گھر سے مردان میڈیکل کمپلیکس کے قرنطینہ وارڈ میں منتقل کر دیا مگر اب دیر ہو چکی تھی۔ سانس اکھڑی تو وینٹی لیٹر پر شفٹ کیا گیا مگر اسی رات اُس کا انتقال ہو گیا۔ 

یہ پاکستان میں کورونا وائرس سے مرنے والا پہلا مریض تھا۔ اسپتال میں ہی میت کو غسل دے کر ایک تابوت میں بند کر دیا گیا اور اہلِ خانہ کو مجبور کیا گیا کہ تدفین اسی رات کو ہوگی اور جنازے میں زیادہ سے زیاہ بارہ افراد شریک ہوں گے۔ اُن بارہ افراد کو بھی دو ہفتوں کے لئے قرنطینہ وارڈ میں رکھا گیا، ٹیسٹ بھی لئے گئے۔ 

یونین کونسل منگاہ جس میں 66ہزار لوگ رہتے ہیں، کو مکمل طور پر لاک ڈائون کر دیا گیا۔ ہنگامی بنیادوں پر قریبی رشتہ داروں، دوستوں اور ان تمام افراد کے طبی نمونے اکٹھے کرنا شروع کر دیے گئے جو اُس سے مل چکے تھے۔ 79افراد کے ٹیسٹ مثبت آئے۔ جس میں اُس کا بیٹا، بہو، دو پوتے اور 40دیگر رشتہ دار شامل تھے۔ اُن میں سے تقریباً نصف افراد صحت یاب ہو کر اپنے گھروں کو جا چکے ہیں مگر علاقہ میں ابھی تک لاک ڈائون ہے۔ 

یونین کونسل کے تمام دیہات میں جراثیم کش ادویات کا اسپرے جاری ہے۔ اس وقت تک تقریباً چالیس میں سے انتیس دیہات کو وائرس سے پاک قرار دیا جا چکا ہے۔

اس کہانی کے مختلف کرداروں سے کہاں کیا غلطیاں سرزد ہوئیں، اِن غلطیوں کا خمیازہ کن افراد نے کیسے ادا کیا یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ اگر ہم اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو یہ لاپروائی کے رویے ہمیں چار سو دکھائی دیں گے۔ ہمارے پاس، اپنے اور اپنے پیاروں کی جانب بڑھتی موت کی پیش قدمی روکنے کیلئے واحد قابلِ عمل حل ’’سماجی دوری‘‘ ہے۔ سماجی دوری کی کامیاب مثال ووہان میں کورونا کا خاتمہ ہے۔ ہمیں آپس میں ایک مخصوص فاصلہ رکھنا ہوگا۔ اگر ایسا نہیں کریں گے تو اپنے آپ کو موت کے منہ میں دھکیل دیں گے بلکہ والد، والدہ، بھائی، بہن، بیوی اور بچوں کی جان بھی خطرے میں ڈال دیں گے۔ 

اس کے سوا کوئی حل نہیں کہ ہم اس بڑے چیلنج کا مقابلہ نہ صرف خود کریں بلکہ قرب و جوار میں موجود لوگوں کو بھی قائل کریں۔ دنیا کی کوئی ریاست ایسی نہیں جو اس آفت کا تن تنہا مقابلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہو۔ ہمیں کورونا کے خلاف جنگ میں ریاست کا ساتھ دینا ہوگا۔ ہمیں سمجھنا ہو گا کہ ہماری چھوٹی سی غلطی سیکڑوں زندگیوں کو موت کے گھاٹ اتار سکتی ہے۔ یاد رکھئے، اگر ہم نے بےاحتیاطی و لاپروائی کی تو شاید ہمارا جنازہ پڑھنے والے بارہ افراد بھی نہ ہوں۔ آپ کا قاری۔ محمد اکمل خان‘‘۔

اس وقت تک کورونا کے خلاف جنگ صرف چین جیت سکا ہے۔ چین نے ہر ممکن کوشش کی کہ وائرس ’’ووہان‘‘ شہر سے باہر نہ نکلے اور تقریباً اس میں کامیاب ہوا۔ انہوں نے سڑکوں پر ناکے لگا دیے اور جال پھینک پھینک کر مریضوں کو گرفتار کیا۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کی صورتحال یہ ہے کہ میانوالی سے تعلق رکھنے والے گیارہ افراد ایک ایمبولینس میں ایک میت کے ساتھ ملتان سے میانوالی آرہے تھے۔ چوک اعظم کے قریب انہیں پولیس اور محکمہ ہیلتھ کے لوگوں نےچیک کیا تو اندازہ ہوا کہ مرنے والا کورونا کا مریض تھا۔ سو فوری طور پر کورونا کے لئے تیار کی گئی ایمبولینس میں میت کو منتقل کیا گیا مگر اتنی دیر میں وہ گیارہ افراد وہاں سے فرار ہو گئے۔ 

کئی گھنٹوں کی تگ و دو کے بعد پولیس انہیں گرفتار کرنے میں کامیاب ہوئی۔ ان میں چھ کے کورونا ٹیسٹ مثبت آئے اور باقی پانچ کے متعلق بھی کہا جارہا ہے کہ ان کی رپورٹ بھی مثبت آنے کا یقینی امکان ہے۔ یہ انتہائی خطرناک صورتحال ہے۔ یہ تو ہم پر ابھی ﷲ کا کرم ہے کہ لاہور جیسے بڑے شہر میں کورونا کے مریض صرف ایک ہزار کے قریب ہیں وگرنہ امریکا کے انتہائی ترقی یافتہ شہر نیویارک میں صرف ایک لاکھ سے زیادہ مریض ہیں اور سوا چھ ہزار کے قریب ہلاک ہو چکے ہیں۔ 

ایک شہر میں اتنی ہلاکتیں، اﷲ امریکا پر رحم کرے۔ دنیا بھر میں کورونا کے مریضوں کی تعداد ساڑھے پندرہ لاکھ تک پہنچ چکی ہے اور ہلاکتیں نوے ہزار پر پہنچنے والی ہیں۔ یعنی تیرہ چودہ فیصد ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔ سو جو کچھ محمد اکمل خان نے اپنے خط میں لکھا ہے۔ اس پر انتہائی سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔