Time 14 اپریل ، 2020
بلاگ

کورونا کے بعد کی دنیا کیسی ہوگی؟

فائل فوٹو

یہ تو طے ہو ہی گیا ہے کہ دنیا اب پہلے جیسی نہیں رہے گی۔ فی الحال یہ قیاس تو ممکن ہی نہیں کہ بعد از کورونا دنیا کے معاشرتی خدوخال دراصل کیسے ہوں گے، لیکن آنے والے دور میں عالمی سطح پر چند تبدیلیوں سے متعلق کسی حد تک اندازہ ضرور لگایا جاسکتا ہے۔

 ان میں آبادی، ٹاون پلیننگ، سفر اور آمدورفت، سیروتفریح، تجارت، ٹرانسپورٹ، ایوی ایشن، خوراک کی پیداوار اور فراہمی، تعلیمی و تدریسی عمل، صحت عامہ اور ناگہانی صورتحال سے متعلق مشترکہ عالمی ضابطوں اور قوانین کا نفاذ شامل ہوسکتا ہے۔ 

ان تبدیلیوں کے مؤثر نفاذ کے لیے، اقوام متحدہ کے دائرہ کار اور اختیارات میں غیر معمولی وسعت بھی ناگزیر ہے۔ یعنی مستقبل قریب کی دنیا، یقیناً عالمگیریت کے نئے دور کی ابتدا ہوگی۔

لالچ اور خوف جیسی جبلت کا، اقوام کو ایک دوسرے سے قریب لانے میں کلیدی کردار رہا ہے۔ کیوں کہ اسی لالچ اور اسی خوف کے تحت ہتھیار ایجاد کیے گئے، تربیت یافتہ مسلح جتھے تیارکیے گئے اور خونی یلغاروں کا ارتکاب کیا گیا۔

انسانی معاشرے میں کبھی کوئی عالمی ادارہ، کسی بڑے عالمی تنازع یا المیے کے بغیر جنم لے سکا ہے اور نہ ہی با اختیار ہوسکا ہے۔ ایسے اداروں کا قیام، بقاء اوراختیارات کا دارومدار، بین الاقوامی تنازعات اور المیوں کے حجم اور دورانئے پرہوتا ہے۔ 

بیسویں صدی کے واقعات، جدید عالمگیریت کے پہلے دورکا بنیادی سبب کہلائے جاسکتے ہیں، ان میں دوعظیم جنگوں کے بعد سرد جنگ، کھیل، ملٹی نیشنل اورکارپوریٹ ادارے اور وبائی امراض شامل ہیں۔ البتہ عالمگیریت کے نئے دورکے ممکنہ تقاضوں کو بیان کرنے سے قبل، تاریخ پر ایک محتاظ نظر ڈالنا ضروری ہے۔

پہلے گاؤں، پھر قصبوں اور پھر شہروں نے جنم لیا، وسیع محلے اور بازار تعمیر ہوئے، شہروں کے درمیان عظیم الشان شاہ راہِیں معرض وجود میں آئیں اورچھوٹی کشتیوں کے بعد، بڑے جہازوں کی مدد سے بین البراعظم بحری راستے دریافت کیے گئے۔ سفر اور سرائے کے نئے تصوارت نے غیر معمولی وسعت اختیار کی اور تمام تر معاشرتی سرگرمیاں آبائی علاقوں اور پڑوس کی حدود پار کرگئیں۔ لالچ اور خوف جیسی جبلت کا، اقوام کو ایک دوسرے سے قریب لانے میں کلیدی کردار رہا ہے۔ کیوں کہ اسی لالچ اور اسی خوف کے تحت ہتھیار ایجاد کیے گئے، تربیت یافتہ مسلح جتھے تیارکیے گئے اور خونی یلغاروں کا ارتکاب کیا گیا۔ یوں دنیا بھر میں فطری طور پر الگ تھلک رہنے والے انسانی گروہ، منظم جنگوں اور اشیاء کی لین دین کے نتیجے میں ایک دوسرے سے قریب ہوتے گئے۔ 

اٹھارہ سو سال قبل، سلطنت روما میں ایک جنگ کے بعد، فوجیوں کے ذریعے پھیلنے والی چیچک کی وبا میں لگ بھگ پانچ لاکھ افراد لقمہ اجل بن گئے۔ آج سے کوئی سوسال قبل ہسپانوی فلو بھِی ایک سپاہی کے ذریعے ہی پھیلا اور کم و بیش پانچ کروڑ انسانوں کی جان لے گیا۔

انسان کی ایک مقام سے ہزاروں میل دور کسی دوسرے مقام پر منتقلی عام ہوگئی۔ لیکن اس منتقلی کا تسلسل، دنیا میں وبائی امراض کے وسیع اورہلاکت خیز پھیلاؤ کی بنیادی وجہ بھی بننے لگا۔ لہٰذا دنیا کے بڑے بڑے شہر، روزانہ لاکھوں افراد کی ان شہروں میں آمدو رفت اور ان شہروں کی آبادی کے مقابلے میں، صحت عامہ کی سہولتوں کی عدم دستیابی، وبائی امراض کے پھوٹنے اور پھیلنے کے بنیادی اسباب میں شامل ہیں۔

سیاسی تنازعات کی طرح وبائی امراض بھی تاریخ کے کم و بیش ہر دور میں دو سے زیادہ اقوام اور ایک سے زیادہ براعظموں میں تباہی کا سبب بنتے رہے ہیں۔ کوئی پانچ سو سال قبل مسیح لڑی گئیں فارسی جنگوں نے بحیرہ روم کے کنارے بسی کئی قوموں کے ساتھ ساتھ، ایشیا، یورپ اور شمالی افریقا کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھا تھا۔ اسی طرح وبائی امراض بھی زمانہ قدیم ہی سے وسیع علاقوں میں شہر اور بستیاں اجاڑتے رہے ہیں۔ 

ہسپانوی فلو کے دور کی تصویر 

اٹھارہ سو سال قبل، سلطنت روما میں ایک جنگ کے بعد، فوجیوں کے ذریعے پھیلنے والی چیچک کی وبا میں لگ بھگ پانچ لاکھ افراد لقمہ اجل بن گئے۔ آج سے کوئی سوسال قبل ہسپانوی فلو بھِی ایک سپاہی کے ذریعے ہی پھیلا اور کم و بیش پانچ کروڑ انسانوں کی جان لے گیا۔ یعنی شہری آبادیوں اور کثرت سفر کے ساتھ ساتھ جنگوں کا بھی وبا کے پھوٹنے اور پھیلنے سے کوئی نہ کوئی تعلق ضرور بنتا ہے۔ لہٰذا بعد از کورونا دنیا کے لیے نئی منصوبہ بندی میں جنگوں اور تنازعات کے ممکنہ اثرات کوبھی مد نظر رکھا جانا چاہیے۔

 ہوسکتا ہے کہ اب شہروں کے خدوخال بڑی حد تک بدل جائیں، تعلیمی اداروں کی پرانی شکل باقی نہ رہے، رہائشی اورتجارتی عمارتوں کی طرز تعمیر انتہائی مختلف ہو، موجودہ طرز قصہ پارینہ بن جائیں

پہلی جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کے بعد لیگ آف نیشنز کا قیام عمل میں لایا گیا تاکہ آئندہ اقوام عالم کے درمیان دوطرفہ اور علاقائی تنازعات کو پر امن طریقے سے حل کرلیا جائے۔ لیکن یہ ادارہ انتہائی غیرمؤثر ثابت ہوا اورآخر کار دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کے بعد، اقوام متحدہ کی داغ بیل ڈالی گئی۔ ایک بار پھر اس سادہ لوح دنیا کو گمان ہوا کہ اب دنیا کو علاقائی تنازعات اور عالمی جنگوں سے ہمیشہ کے لیے نجات مل جائے گی۔ لیکن یہ خواب ایٹم بم کے تجرباتی دھماکوں اورپھر ایک طویل سرد جنگ کی بھینٹ چڑھ گیا۔ دو عالمی طاقتوں کے زیر اثر جنم لینے والے بلاک سسٹم نے اگلے چوالیس برس تک، دنیا کے بڑے حصے کو یرغمال اورسیاسی و معاشی طور پر محکوم بنائے رکھا۔

سرد جنگ کے دوران، سرمایہ دارانہ نظام کے تحت مصنوعات کی فروخت کے لیے منڈیاں حاصل کرنے کی لڑائیاں اور اسلحہ سازی کی دوڑ نے عالمی امن کےقیام اوردنیا سے مفلسی اور بیماریاں ختم کرنے کے اجتماعی خواب ملیا میٹ کر ڈالے۔ جمہوری اقدار کے پھلنے پھولنے کے باوجود، کسی نہ کسی شکل میں موجود شہنشاہیت اور آمریت نے دنیا کی بڑی آبادی کو تعلیم، خوشحالی، جمہوریت اور صحت عامہ کی بنیادی سہولتوں سے دور رکھا۔ علاقائی تنازعات، اندرونی خلفشار اور دہشت گردی پھلتی پھولتی رہی۔ 

اقوام متحدہ جیسا ادارہ ان معاملات پر سوائے بیانات جاری کرنے او ر محدود پیمانے پر امداد اور عملہ بھیجنے کے سوا، مکمل طور پر بے اختیار رہا۔ البتہ کورونا وائرس کی عالمی اور مہلک وبا نے دنیا پر ایک بار پھر عالمی ضابطوں اور قانون سازی کی اہمیت اجاگر کردی ہے۔

تاریخ کے اس نئے دورمیں قوی امید کی جاسکتی ہے کہ اب اقوام متحدہ کی نمائشی حیثیت کو برقرار رکھنے کے بجائے، اس ادارے کو عملاً با اختیاربنایا جائے گا تاکہ حالیہ وبا اور مستقبل میں اس کے یا اس جیسی دیگر مہلک بیماریوں کے حملے سے انسانیت کو محفوظ رکھا جاسکے۔ تاریخی تناظر میں شہروں کے بڑھاوے، سفر اور آمدورفت میں غیر معمولی اضافے، گلی کوچوں، شاہ راہوں، اسپتالوں، بازاروں اور تفریحی مقامات پر ہجوم، تعلیمی و تدریسی عمل میں جسمانی قربت اور سفرو آمدورفت میں کثرت وبائی امراض کے بنیادی اسباب ہیں۔ لہٰذا اب اقوام عالم کے لیے مشترکہ عالمی ضابطوں کے نفاذ اور منصوبہ بندی کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہے۔

موجودہ کورونا وبا کے دوران چین کا ایک منظر

اگرعالمی اداروں کو دنیا کی نئی منصوبہ بندی کے لیے مذکورہ وسعت اور اختیارات حاصل ہوجاتے ہیں، تو ہوسکتا ہے کہ اب شہروں کے خدوخال بڑی حد تک بدل جائیں، تعلیمی اداروں کی پرانی شکل باقی نہ رہے، کلاس روم کا صدیوں پرانا تصور، جدید ٹیکنالوجی کے سہارے جزوی طور پر یا یکسر تبدیل ہوجائے، رہائشی اورتجارتی عمارتوں کی طرز تعمیر انتہائی مختلف ہو، موجودہ طرز پر بنی سڑکیں، گلیاں اور محلے قصہ پارینہ بن جائیں، کارخانوں میں محنت کشوں کے کام کرنے کا طریقہ کار نیا ہو، شاید آج کا کوئی ذہن نئی طرز کے بس اسٹاپس، ٹیکسی اسٹینڈز، ہوائی اڈے اور ریلوے اسٹیشنز دیکھ کرمایوس ہوجائے، اور ہو سکتا ہے کہ کاروں، بسوں، ہوائی و بحری جہازوں اورریل گاڑیاں بھی نئے انداز میں ڈیزائن کردی جائیں۔

معاملہ یہیں تک رہے تو شاید نئی دنیا میں پرانے لوگوں کا دل کسی نہ کسی طرح لگ ہی جائے، لیکن اگر محفلوں میں اپنوں سے ملنے کے انداز ہمیشہ کے لیے بدل دئے گئے، حسینوں کو چھپ کر چھیڑنا بھی مہنگا پڑنے لگے، چوری کی ملاقاتوں کا بھانڈہ بار بار پھوٹ جائے، فراق کی گھڑیوں میں بھی فاصلہ درکار ہو، اور ہجر کے وقت بھِی نگاہ پرنم سے گرتے آنسوپوچھنا مضر صحت قرار دیا جاچکا ہو، تو پھراس نئی دنیا میں جینے کے لیے، تمام اہل دل کو اپنی موجودہ یادداشت دانستہ طور پر تلف کرنا ہوگی۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔