Time 21 اپریل ، 2020
بلاگ

’اور مجھے جان کی امان بھی دے‘

فوٹو: فائل

چینی آٹا اسمگلنگ پر 14سال جبکہ ذخیرہ اندوزی پر 3سال قیدہو گی لیکن اصل سوال پھر وہی کہ عملدرآمد کتنا ہو گا اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اس کی رفتار کیا ہو گی؟

 اس موضوع پر بات کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا تھا کہ حکومت ملازمین، منیجرز پر نہیں ان کالے دھندوں کے ’مالکان‘ پر ہاتھ ڈالے گی، ارادہ نیک ہے لیکن کام اتنا سادہ نہیں کیونکہ جس ملک میں بیش قیمت جائیدادیں اور گاڑیاں بھی ذاتی ملازمین کے نام پر ہوں، وہاں اصل مالک تک تو ملک الموت ہی پہنچ سکتا ہے لیکن بہرحال قوم حسب عادت، حسب معمول سوکھے ہوئے درخت کے ساتھ پیوستہ، امید بہار رکھتے ہوئے علامہ اقبال کی ہدایت پر عمل کر رہی ہے۔

دوسری طرف ایک دن میں 24 اموات کی خبر ہے اور پاکستان میں کورونا سے مرنے والوں کی تعداد میں یکدم تیزی دکھائی دے رہی ہے تو عوام کو  احتیاط پر فوکس میں اضافہ کرنا ہو گا۔ 

گئی اتوار میں ریکارڈنگ کیلئے  جیو گیا تو آفس آتے جاتے ٹریفک کی صورت حال دیکھ کر خاصی مایوس ہوئی، میں اتوار کی ٹریفک کا ایکسپرٹ ہوں کیونکہ عرصہ دراز سے صرف اتوار کو  میرے مطابق کیلئے ہی گھر سے نکلتا ہوں سو پوری ذمہ داری اور اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ گزشتہ اتوار کو عام اتواروں سے کہیں زیادہ رش تھا۔

حکومت ڈبل سواری کو رورہی ہے جبکہ میں نے میاں بیوی اور تین تا 4 بچوں سمیت 5 تا 6 سواریوں کو موٹر سائیکلوں میں ٹھنسے ہوئے دیکھا، نہر کے ساتھ والی سڑک پر ٹھوکر نیاز بیگ تا مال روڈ دو جگہ  ناکے نما سرگرمیوں کی کم از کم مجھے سمجھ نہیں آئی کہ خواہ مخواہ ٹریفک پھنس جاتی ہے اور ایک گاڑی اوسطاً 10 تا 13 منٹ رینگتی رہتی ہے لیکن جنہیں 72 سال کی غارت گری کا ملال نہیں، ان کیلئے دس پندرہ منٹ کی کیا اوقات؟ 

اخباری خبر کے مطابق وسیم اکرم پلس وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے پروٹوکول کے بغیر لاہور کا  اچانک دورہ کیا اور زیادہ ٹریفک پر برہمی کا اظہار بھی کیا، سچ پوچھیں تو مجھے آج تک اس سیاسی مخلوق کی برہمی، میلی آنکھ، آہنی ہاتھوں، دودھ کا دودھ پانی کا پانی، سیسہ پلائی دیوار، جمہوریت کا حسن وغیرہ جیسی لاتعداد دیگر نان سینس کی سمجھ نہیں آئی تو ظاہر ہے قصور ان جمہوری گلیڈی ایٹرز کا نہیں، میری سوچ کا ہے۔

 قارئین میں سے کوئی چاہے تو  دودھ کا دودھ پانی کا پانی والا محاورہ مجھے سمجھا دے کہ دودھ تو ہوتا ہی پانی ہے، بات چلی تھی کورونا سے تو ایک بار پھر عوام سے انتہائی احتیاط کی اپیل ہے کہ  ،جاگتے رہنا صرف حکومت پہ نہ رہنا لیکن کچھ اور حقائق بھی قابل غور ہیں مثلاً یہ کہ ہر سال دنیا بھر میں Road Accidents کی تعداد 13 لاکھ 50 ہزار سے کچھ زیادہ ہی ہوتی ہے جن میں روزانہ 37 سو لوگ زندگی کی بازی ہار بیٹھتے ہیں۔

دنیا بھر میں ہارٹ اٹیک سے مرنے والوں کی تعداد 60 لاکھ سالانہ سے زیادہ ہے، دنیا بھر میں تو ٹی بی ختم ہو چکی لیکن پاکستان میں اب بھی 69 ہزار افراد سالانہ کے حساب سے ٹی بی کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں اور ہیپاٹائٹس سے ہر سال ایک لاکھ 30 ہزار پاکستانی اس نظام کی سولی چڑھ جاتے ہیں جس میں پینے کا صاف پانی ہی موجود نہیں اور شاعر کم بخت اس بات پر روتا ہے کہ آج اتنی بھی میسر نہیں مے خانے میں جتنی ہم چھوڑ دیا کرتے تھے پیمانے میں اپنے میڈ ان پاکستان کے پیمانے بھی عجیب ہیں کہ کچھ لوگوں کی پیاس بجھانے کیلئے خالص انسانی خون کی فراوانی ہے جبکہ بھاری اکثریت کو پینے کا صاف پانی بھی نصیب نہیں۔

One For The Road  کے طور پر یہ بھی سن لیں کہ پچھلے برس صرف تھر میں غذا کی کمی کے سبب 820 بچے اللہ کو پیارے ہو گئے اور میں سوچتا ہوں کہ جب یہ 820 بھوکے بچے رب کے حضور پیش ہوئے ہوں گے تو رب نے ہم سب کے بارے میں کیا فیصلہ کیا ہو گا؟ 

ہم سب سے میری مراد وہ لوگ ہیں جنہیں دی گئی اہم ترین ہدایات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہمیں دائیں ہاتھ سات اور بائیں ہاتھ سات گھروں کے حالات کا علم ہونا چاہئے اور اگر تمہارا پڑوسی بھوکا سو گیا تو ...........چلتے چلتے یہ بھی سن لیں کہ دو وقت کی روٹی کا بھوکا اور چند گھونٹ پانی کا پیاسا تھر سندھ میں ہے اور قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کا تعلق بھی سندھ سے تھا اور یہ بھی بھٹو صاحب ہی تھے جنہوں نے ’’روٹی کپڑا مکان‘‘ کا نعرہ بلند کیا اور پھر ان کی زندگی میں ہی شاعر چیخ اٹھاروٹی کپڑا بھی دے مکان بھی دےاور مجھے جان کی امان بھی دےآج بھٹو صاحب کا نواسا بلاول سندھ کا اصل حکمران اور نانا جان کی انقلابی پارٹی کا سربراہ ہے تو یقین رکھیں کہ اگر بلاول نہیں تو بلاول کا نواسا ضرور اپنے نانا کے نانا کا منشور نبھا دے گا ........ پھر پیوستہ رہ شجر سے کچھ لوگ ایسا ہی بھیانک تجربہ پنجاب میں بھی کرنا چاہتے ہیں تو ست بسم اللہ لیکن احتیاط بھی تو کوئی شے ہے یا نہیں؟


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔