سلیم ملک واپس کیوں نہیں آسکتے؟ اندرونی کہانی سامنے آگئی

انضمام اور ثقلین سمیت کئی کرکٹرز ان پر پاکستان کرکٹ کے دروازے کھولنے کیلئے مہم چلارہے ہیں لیکن سلیم ملک کو سنگین الزامات میں تحقیقات کا سامنا ہے— فوٹو: فائل

ماضی کے ٹیسٹ کپتان اور میچ فکسنگ میں سزا یافتہ کرکٹر سلیم ملک کا کرکٹ کی دنیا میں آکر کوچنگ یا کوئی اور کام شروع کرنے کا کیس بظاہر سادہ اورآسان دکھائی دے رہا ہے لیکن ایسا ہے نہیں۔

انضمام الحق اور ثقلین مشتاق سمیت کئی ٹیسٹ کرکٹرز ان پر پاکستان کرکٹ کے دروازے کھولنے کے لیے مہم چلارہے ہیں لیکن سلیم ملک کو پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے ایک اور کیس میں سنگین الزامات میں تحقیقات کا سامنا ہے۔

سلیم ملک اس کیس میں خاموش ہیں اس لیے ان کے کیس میں پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔اس کیس میں سب سے بڑا فریق انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) ہے۔

اب سے ٹھیک 7 سال پہلے پاکستان کرکٹ بورڈ کے اس وقت کے چیف آپریٹنگ آفیسر سبحان احمد نے آئی سی سی سے ملنے والے 'ٹرانس کرپٹ' کے بارے میں سلیم ملک سے تحریری وضاحت مانگی تھی لیکن سلیم ملک نے اپنی ساکھ کے حوالے سے اطمینان بخش جواب دینے سے گریز کیا جس کی وجہ سے ان کی واپسی کے دروازے کھل نہ سکے۔

مشکوک لوگوں سے گفتگو پر وضاحت کے حوالے سے سیلم ملک کو تحقیقات کا سامنا ہے اور انہی تحقیقات کی وجہ سے وہ کرکٹ کی دنیا میں واپس نہیں آسکتے کیوں کہ انہوں نے تحقیقات میں تعاون سے گریز کیا اور ابھی تک جواب نہیں دیا۔

ذمے دار ذرائع کے مطابق لندن کے ہوٹل میں تین میٹنگز میں سلیم ملک کی گفتگو خوفناک اور آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں۔ان میٹنگز میں وہ جن لوگوں کے ساتھ جو گفتگو کررہے ہیں اس کا ریکارڈ آئی سی سی نے اپنے جاسوسوں کے ذریعے حاصل کیا اور پاکستان کرکٹ بورڈ کو اس بات چیت کا ریکارڈ مزید کارروائی کے لیے بھیجا گیا۔

پاکستان کرکٹ بورڈ کے قانونی مشیر تفضل رضوی نے جیو کے رابطہ کرنے پر تصدیق کی کہ سلیم ملک نے لندن کے ہوٹل میں کچھ نامعلوم لوگوں کے ساتھ ہونے والی میٹنگ کے بارے میں مانگی گئی وضاحت پر آج تک کوئی جواب نہیں دیا جس کی وجہ سے سلیم ملک کیس میں مزید پیش رفت نہ ہوسکی اور بات آگے نہ بڑھ سکی۔

تفضل رضوی نے کہا کہ انٹر نیشنل کرکٹ کونسل نے پاکستان کرکٹ بورڈ کو 2010میں سلیم ملک کی تین میٹنگز کا ٹرانس کرپٹ بھیجا تھا جس میں وہ کچھ مشکوک لوگوں سے بات چیت کررہے ہیں۔اس بارے میں اپریل 2013میں پاکستان کرکٹ بورڈ نے سلیم ملک کو خط لکھ کر ٹرانس کرپٹ اور میٹنگ میں ہونے والی بات چیت پر وضاحت مانگی تھی کیوں کہ ٹرانس کرپٹ میں سلیم ملک پر سنجیدہ نوعیت کے الزامات تھے۔

اس سے قبل 2010 میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے اس وقت کے چیئرمین اعجاز بٹ نے سلیم ملک کو قومی اکیڈمی میں ہیڈ کوچ مقرر کیا تھا لیکن آئی سی سی کے پاس لندن کی ہوٹل میں ہونے والی میٹنگ کی تفصیلات سامنے آچکی تھیں اس لیے اس وقت آئی سی سی کے چیف ایگزیکٹیو ہارون لوگارٹ نے سلیم ملک کی تقرری پر تحفظات ظاہر کیے تھے اور پی سی بی نے سلیم ملک کو ملازمت دینے سے انکار کردیا تھا۔

خیال رہے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان سلیم ملک نے گزشتہ دنوں اپنے بیان میں کہا تھا کہ محمد عامر اور شرجیل خان کی طرح انھیں بھی کرکٹ میں واپسی کا موقع دیا جائے۔

قومی ٹیم کے سابق کپتا ن نے کہا تھا کہ عامر، شرجیل اور سلمان بٹ کو پی ایس ایل میں بھی شامل کیا گیا لیکن مجھے ہر جگہ نظراندازکیا جا رہا ہے۔

سابق کپتان نے کہا کہ 2008 میں عدالت نے باقاعدہ مجھے کلین چٹ دے دی تھی، عدالت سے کلین چٹ لینے کے باوجود مجھے موقع نہیں دیا جاتا۔

انہوں نے چیئرمین پاکستان کرکٹ بورڈ سے اپیل کی کہ مجھے ملک کی خدمت کرنے کا موقع دیں، کسی بھی سطح پر کوچنگ کر کے پاکستان کی خدمت کرنا چاہتا ہوں۔

اسپاٹ فکسنگ اور رشوت کے الزام میں جسٹس قیوم انکوائری رپورٹ کی روشنی میں پاکستان کرکٹ بورڈ نے سلیم ملک پر 2000 میں تاحیات پابندی عائد کر دی تھی، بعدازاں لاہور کی ایک مقامی عدالت نے 2008 میں سلیم ملک پر لگائے گئے الزامات کو غلط قرار دیتے ہوئے ان پر عائد پابندی کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔

مزید خبریں :