25 اپریل ، 2020
بڑا خطرہ بھوک ہے یا کورونا وائرس؟ بدقسمتی سے ہمارے حکمران اس سوال کا جواب ڈھونڈنے میں غلطی کرگئے، وہ غربت اور بھوک کو ایک دوسرے سے خلط ملط کرگئے، وہ اگر مغربی ذہن سے سوچنے کی بجائے پاکستانی ذہن کے ساتھ سوچتے تو قطعاً غلط نتیجے تک نہ پہنچتے۔
کورونا نے سینکڑوں مار ڈالے اور خطرہ ہے کہ (خاکم بدہن) لاکھوں مار ڈالے لیکن پاکستان میں بھوک سے کوئی مرا ہے اور نہ مرے گا۔ ان شاءاللہ۔ یقیناً پاکستان میں بہت غربت ہے،موجودہ دورِحکومت میں یہ بہت بڑھ گئی ہے اور کورونا کی وجہ سے یہ غربت انتہائوں تک پہنچے گی لیکن مکرر عرض ہے کہ ان شاءاللہ اس معاشرے میں بھوک سے کوئی نہیں مرے گا۔
وجوہات اس کی یہ ہیں کہ امریکا اور اٹلی وغیرہ کے برعکس پاکستان میں خاندانی نظام بہت مضبوط ہے، خاندان میں کوئی نہ کوئی ایسا ضرور ہوتا ہے کہ وہ اپنے کسی عزیز کو بھوک سے مرنے نہیں دیتا۔
پھر پاکستانی معاشرہ مذہبی حوالوں سے دو انتہائوں پر ہے، ایک طرف کرپشن، منافقت اور جھوٹ وغیرہ انتہائوں پر ہے تو دوسری طرف انفاق فی سبیل اللہ میں بھی پاکستانی قوم کا کوئی ثانی نہیں۔
حالیہ مصیبت میں ہم نے دیکھا کہ ابھی حکومت کسی غریب تک نہیں پہنچی تھی لیکن کراچی سے چترال تک درجنوں فلاحی تنظیمیں اور ہزاروں شخصیات متحرک ہوگئیں جو گھر گھر راشن پہنچا رہی ہیں۔
رمضان کے مہینے میں تو بظاہر گناہگاراور مڈل کلاس لوگ بھی زیادہ سے زیادہ انفاق کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے دین کے ساتھ ساتھ ہماری معاشرتی اخلاقیات بھی پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک پر زور دیتی ہیں۔
اسی طرح پاکستان میں ایک ڈسپلنڈ اور باوسائل قومی فوج موجود ہے جو پورے ملک میں پھیلی ہے اور آفات کے وقت راشن کی رسائی ہو یا کوئی اور ضرورت، اس کو پورا کرنے کے لئے پوری قوت لگاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں صحت مسئلہ رہتا ہے،مکان مسئلہ رہتا ہے، کپڑا مسئلہ رہتا ہے، تعلیم مسئلہ رہتا ہے لیکن مجھے تو کم از کم آج تک کوئی ایسی خبر نہیں ملی کہ فلاں بندہ یا فلاں خاندان روٹی نہ ملنے کی وجہ سے مرگیا۔
دوسری طرف کورونا کی وجہ سے ابھی دنیا میں لاکھوں اور پاکستان میں سینکڑوں لوگ لقمہ اجل بن گئے جبکہ اب ڈاکٹریہ خطرہ ظاہر کررہے ہیں کہ اگر کورونا اسی رفتار سے پھیلتا رہا تو خدا نخواستہ یہاں بھی ہلاکتیں ہزاروں بلکہ لاکھوں تک جاسکتی ہیں۔
بدقسمتی سے مغربی ذہن کے ساتھ سوچنے والے ہمارے حکمران اور مغرب سے حکمرانی کے لئے آنے والے ان کے مشیروں نے بھوک کو کورونا سے بڑا خطرہ سمجھا۔ انہوں نے یہ بھی غلط رائے قائم کی کہ کورونا سے مرنے والوں کے لئے قسمت کو جبکہ بھوک سے پریشان ہونے والوں کے لئے حکومت کو ذمہ دار قرار دلایاجائے گا۔
ان کے ذہنوں میں یہ خوف بھی بیٹھا تھا کہ غربت کے شکار لوگ سڑکوں پرنکل آئیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے حکمران پہلے دن سے کورونا کی نسبت بھوک کو بڑے خطرے کے طور پر پیش کرتے رہے اور اسی لیے وزیراعظم صاحب پہلے دن سے لاک ڈاؤن کے حق میں نہیں۔ جو برائے نام لاک ڈاؤن ہوا، وہ بھی انہوں نے نہیں کیا بلکہ ان سے کروایا گیا اور یہی وجہ ہے کہ کورونا سے متعلق قوم کے نام تینوں خطابات میں وہ کبھی لاک ڈاؤن سے وابستہ خطرات بیان کرتے نظر آئے تو کبھی لوگوں کو کورونا سے ڈراتے ہوئے۔
یہی وجہ ہے کہ حکومت کی طرف سے قوم کورونا کے بارے میں بروقت پوری طرح ایجوکیٹ نہیں ہوئی۔ کچھ لوگ حد سے زیادہ ڈر گئے اور معاشرے کا غالب طبقہ اس کو سنجیدہ نہیں لے رہا۔
اسی باعث کاروباری طبقات کی طرف سے برائے نام لاک ڈاؤن ختم کرنے کے لئے دباؤ بڑھتا رہا۔ چنانچہ جب کورونا مزید پھیل گیا تو ہماری حکومت نے لاک ڈاؤن میں نرمی کردی۔
ایسے عالم میں جبکہ کورونا کے کیسز خطرناک رفتار سے بڑھ رہے ہیں، لاک ڈاؤن میں نرمی اور مساجد کھول کر باجماعت تراویح کی اجازت دینا قومی خودکشی کے مترادف ہے اور اب صرف اور صرف اللہ رب العالمین کسی معجزے کے ذریعے ہی ہمیں امریکا اور اٹلی بننے سے بچا سکتا ہے۔
یہ عجیب ملک ہے اور لوگ عجیب منطق دیا کرتے ہیں۔ ایک طرف ہم سب کہتے ہیں کہ اس جنگ کے فرنٹ لائن سپاہی اور ہیرو ہمارے ڈاکٹر ہیں اور دوسری طرف ان کی بات ماننے کے بجائے ہم کہیں کسی سیاستدان کی بات مان رہے ہیں، کہیں کسی تاجر کی اور کہیں کسی مولوی کی۔
بھارت کے ساتھ جنگ تو کیا ملک کے اندر وار آن ٹیرر کے دوران بھی سیاسی قیادت نے وہی کچھ کیا جو اس جنگ کو لڑنے والے فوجی تجویز کرتے رہے۔اس کی خاطر پاکستانی اپنے کئی بنیادی حقوق سے بھی دستبردار ہوگئے یا کرائے گئے لیکن کورونا کے معاملے میں اس جنگ کو سمجھنے والے اور فرنٹ لائن پر لڑنے والے ڈاکٹروں کے بجائے کہیں حفیظ شیخ کی سنی جارہی ہے، کہیں کسی سیٹھ کی تو کہیں مفتی منیب الرحمٰن کی۔
ہم اگر جہالت سے کام نہ لیں اور سیاسی اور مذہبی تعصبات اور مفادات کی عینکیں اتار کر سوچ لیں تو اس وقت ہر سطح ہر، ہر شعبے کا احاطہ کرنے والے مکمل لاک ڈاؤن کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ کراچی اور لاہور میں جن قدآور ڈاکٹروں نے مجبور ہوکر پریس کانفرنس کی، وہ ہم سب کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے۔ یہ دعوے جہالت کے سوا کچھ نہیں کہ پاکستان میں معاملہ کنٹرول میں ہے اور یہاں یہ وبا خطرناک صورتحال اختیار نہیں کرے گی۔
امریکا میں پہلا کیس 21جنوری کو رپورٹ ہوا تھا جبکہ پاکستان میں 36دن بعد یعنی 26فروری کو۔ یوں ہم اس معاملے میں امریکا سے ایک مہینہ چھ دن پیچھے ہیں۔ امریکامیں اس وبا کے داخل ہونے کے چالیس دن بعد کیسز ایک ہزار تک پہنچے تھے جبکہ ہمارے ہاں صرف تیس دن میں کیسز ایک ہزار تک پہنچ گئے۔
امریکا میں وبا کے داخل ہونے کے چالیس دن گزرنے کے بعد وہاں 38 ہلاکتیں ہوئی تھیں جبکہ ہمارے ہاں 38دنوں میں چالیس ہلاکتیں ہوئیں۔ گویا ہمارے ہاں وبا کے پھیلنے اور ہلاکتوں کی رفتار امریکا سے زیادہ ہے۔
یوں اندازہ کرلیجئے کہ جب بغیر لاک ڈاؤن کے یہاں مزید 36دن گزریں گے تو ہماری حالت کیا ہوگی؟ ابتدا میں تو صدر ٹرمپ بھی کورونا کا مذاق اڑارہے تھے لیکن اب ان کی حکومت کے اوسان خطا ہیں۔
اس پس منظر میں میری تو یہی التجا ہے کہ اللہ کے بندو! خدا کا خوف کرو۔ اس وبا کو مذاق نہ بناؤ۔ ڈاکٹروں کی پکار سنو۔ مکمل لاک ڈاؤن کی طرف جائو۔ اللہ پربھروسہ رکھو۔ ان شاءاللہ بھوک سے کوئی نہیں مرے گا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔