Time 28 اپریل ، 2020
بلاگ

مولانا طارق جمیل پر غصہ کیوں؟

فوٹو: فائل

قدرت راستوں کا تعین کرتی ہے، انسانوں کے بس میں یہ بھی نہیں، طارق جمیل کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، جب والد نے سینٹرل ماڈل اسکول لاہور میں داخل کرایا تو اس وقت طارق جمیل زمینداروں کا ایک بچہ تھا، میاں چنوں کے پاس ان کا آبائی علاقہ تلمبہ زمینداروں کی وجہ سے نہیں، اہل طرب کی وجہ سے مشہور ہے مگر اس سے بھی انکار ممکن نہیں کہ وہاں کے بڑے زمیندار سہو ہیں، طارق جمیل، چوہان راجپوتوں کے قبیلے سہو سے تعلق رکھتے ہیں، ان کا خاندان شیر شاہ سوری کے دور میں تلمبہ کا حکمران تھا، تلمبہ کے آس پاس زمینیں اسی خاندان نے تقسیم کیں۔ 

میٹرک کے بعد طارق جمیل نے گورنمنٹ کالج لاہور پہنچ کر راوین بننے کا اعزاز حاصل کیا، 1969ء میں گورنمنٹ کالج کے اقبال ہوسٹل میں عزیز اللہ نیازی اور طارق جمیل روم میٹ تھے، دونوں ہاکی کے کھلاڑی تھے، طارق جمیل شاندار گلوکار بھی تھا۔ 

ایک دن عزیز اللہ نیازی، طارق جمیل کو رائے ونڈ لے گیا، اقبال ہاسٹل سے ایک اور طالب علم ارشد اولکھ بھی رائے ونڈ گیا، عزیز اللہ نیازی خود تو واپس آ گیا مگر طارق جمیل کا وہاں دل لگ گیا۔ 

ایف ایس سی کے بعد کنگ ایڈورڈ میں داخلہ ہوا مگر وہ میڈیکل کے بجائے دین کی طرف راغب ہو گیا، وہ ڈاکٹر تو نہ بن سکا البتہ مولانا بن گیا، بظاہر ڈاکٹر نہ بن سکنے والے نے بے شمار انسانوں کا علاج کیا، لاکھوں انسانوں کی روحوں کو سکون بخشنے والے طور طریقے بتائے۔ 

رب لم یزل نے اسے شہرت سے بہت نوازا، اس مسیحائی کی اسے کئی مرتبہ قیمت بھی ادا کرنا پڑی، والد نے یہ کہہ کر گھر سے نکال دیا کہ ’’تمہیں لاہور ڈاکٹر بننے کے لیے بھیجا تھا، مولوی نہیں، کیا ہم زمینداروں کے بچے مولوی بنیں گے؟‘‘ ایک قیمت چند دن پہلے بھی ادا کرنا پڑی، ان کی باتوں پر میڈیا کے چند لوگ غصے میں آ گئے، وہ غصے میں کیوں آئے، اس پہ بعد میں بات کرتے ہیں، پہلے معاشرے کی تصویر کا ایک رخ دیکھ لیجیے۔ 

تبلیغی مرکز سے تعلق کی وجہ سے ہم انہیں ایک مخصوص فرقے کا نمائندہ سمجھتے تھے مگر یہ پرانی بات ہے جیسے جیسے پاکستان میں میڈیا اور سوشل میڈیا بڑھا تو پتا چلا کہ طارق جمیل تو فرقہ پرستی کے خلاف ہے بلکہ وہ تو اس بات کی تلقین کرتا ہے کہ تفرقوں میں نہ پڑو۔ پھر طارق جمیل نے ’’گلدستۂ اہل بیت‘‘ لکھ کر شکوک و شبہات کے سارے قصے ختم کر دیے۔ 

میرے مرشد کا علامہ اقبالؒ سے کیا تعلق تھا، یہ متعدد بار لکھ چکا ہوں، مرشد نے وقتِ رخصت ایک بات سمجھائی تھی کہ ’’دونوں جہانوں میں اہل بیت سے محبت کرنا، اس دنیا میں بھی اہل بیت کا گھرانا اور اگلے جہان میں بھی اہل بیت کا گھرانا ہے، اس گھرانے سے محبت نہ چھوڑنا‘‘۔ 

خواتین و حضرات! ٹی وی اینکرز نے کیوں برا منایا؟ ان سے متعلق وزیراعظم عمران خان نے بہت کچھ کہا مگر وہ چپ رہے، آصف زرداری انہیں سیاسی اداکار کہتے تھے، رانا ثناء اللہ نے تو اینکرز کے بارے میں ایسی بات کہی کہ میں وہ شرمناک بات لکھ بھی نہیں سکتا، اس کے علاوہ بھی کئی لوگوں نے بہت کچھ کہا مگر یہ سب چپ رہے اور خوشیاں منانے والے یہ بھول گئے کہ فلسفۂ آزادیٔ اظہار کیا کہتا ہے؟ 

مولانا طارق جمیل کو اللہ تعالیٰ نے خطابت کے جوہر سے نواز رکھا ہے، فرقہ واریت سے کہیں دور، محبت گھولتی ہوئی گفتگو مولانا طارق جمیل کا خاصہ ہے۔ لوگ ان کی گفتگو بھرپور توجہ سے سنتے ہیں۔ 

انہوں نے پیارے رسولؐ کی حدیث کی روشنی میں معاشرے کی جو عکاسی کی وہ بالکل درست ہے، ذرا سوچئے، کیا ہمارے معاشرے میں جھوٹ، دھوکا اور بے حیائی نہیں؟ کیا یہاں رشوت کے بازار گرم نہیں؟ کیا ملاوٹ اور بددیانتی نہیں؟ کیا یہاں گراں فروشی نہیں؟ کیا ہمارے ملک میں لوگوں کی جائیدادوں پر قبضے نہیں ہوتے؟ کیا ملک میں زکوٰۃ کا نظام درست ہے؟ کیا یہاں پولیس ظالم کے ساتھ کھڑی نہیں ہوتی؟ کیا یہاں مافیاز بددیانتی کا مظاہرہ نہیں کرتے؟ 

کیا یہاں کا ہر طبقہ بے ایمانی نہیں کرتا؟ کیا یہاں نہری پانی چوری نہیں ہوتا؟ کیا ہمارے تاجر نے بددیانتی اور سود چھوڑ دیا ہے؟ کیا ہمارے معاشرے میں لاشوں کی بے حرمتی نہیں کی گئی؟ کیا تم قصور کی زینب کو بھول گئے ہو؟ مجھ سمیت میڈیا کے بہت سے لوگ اقرار کر رہے ہیں کہ اس شعبے میں بہت سے لوگ جھوٹ بولتے ہیں، بہت سے منافقت کرتے ہیں، کچھ ایسے بھی ہیں جو تکبر کرتے ہیں، کچھ کی زندگیوں کا مشن محض دولت کا حصول ہے۔

مولانا نے بحیثیت مجموعی بات کی، انہو ں نے تو نظامِ عدل پر بھی تنقید کی۔ اگر انہوں نے یہ کہہ دیا کہ عمران خان کو اجڑا ہوا چمن ملا ہے تو اس میں غلط کیا ہے؟ جھوٹ جہاں غالب ہو وہاں اتنا کڑوا سچ واقعی جرم ہے۔ 

جہاں جھوٹ کا بسیرا ہو وہاں سچ بولنا خطا سے کم نہیں، کس طرح ایک سیاسی جماعت کے ہرکارے، کچھ سیاسی اداکار اور نام نہاد لبرلز ایک عالم دین کے پیچھے پڑ گئے۔ جس کا قصور یہ تھا کہ اس نے معاشرے سے اپیل کی کہ برائیاں چھوڑ کر اللہ کو راضی کرو۔

خواتین و حضرات۔ حالیہ صورتحال پر تو ڈاکٹر خورشید رضوی کا شعر یاد آ رہا ہے کہ؎

ہر جبر سے خاموش گزر آئے کہ افسوس

جاں بھی ہمیں درکار تھی عزت کے علاوہ


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔