Time 29 اپریل ، 2020
بلاگ

فردوس عاشق کیوں ہٹائی گئیں

فوٹو: فائل

فردوس عاشق اعوان کو ہٹا دیا گیا، میرے لیے یہ کوئی چونکا دینے والی خبر نہ تھی، مجھے پہلے سے اندازہ تھا، میرے لیے اصل خبر یہ ہے کہ فردوس عاشق اعوان پر کرپشن کے الزام عائد کیے گئے اور جو الزامات لگائے گئے اُنہیں پڑھ کر مجھے ہنسی آ گئی۔ 

پہلا الزام یہ تھا کہ انہوں نے حکومتی اشتہاری بجٹ سے 10 فیصد کمیشن لینے کی ناکام کوشش کی، کیا کہنے! اشتہارات دینا اطلاعات کے افسر کا کام ہے، زیادہ تر اشتہارات بڑے بڑے میڈیا گروپ کے اخبارات اور چینلز کے لیے ہوتے ہیں، وہاں سے کمیشن کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، باقی جو چھوٹے موٹے ڈمی اخبارات ہیں اُن کے اشتہارات کا ریٹ اتنا کم ہے کہ یہ کوئی ایسی رقم نہیں بنتی جو فردوس عاشق اعوان جیساخوشحال پس منظر رکھنے والی خاتون کو کرپشن پر آمادہ کر سکے۔ 

اگر کہا جاتا کہ اس نے 10، 20 ارب روپے کی کرپشن کی کوشش کی ہے تو آدمی سوچتا کہ ممکن ہے کسی کمزور لمحے میں کوئی فیصلہ ہو گیا ہو مگر یہ چند لاکھ والی کرپشن کا الزام میرے حلق سے نہیں اُترتا۔ 

دوسرا الزام اس سے بھی زیادہ عجیب و غریب ہے کہ اس نے گھریلو استعمال کے لیے تین سرکاری گاڑیاں رکھی ہوئی تھیں، میرا سوال یہ ہے کہ اس کے گھر میں کون تھا جو یہ گاڑیاں استعمال کرتا تھا، انہیں جاننے والوں کو اچھی طرح علم ہے کہ ان کی کتنی مختصر سی فیملی ہے، تین گاڑیوں میں یقیناً ایک خود استعمال کرتی ہوں گی ایک ان کا پی ایس استعمال کرتا ہوگا، تیسری پی آر او کے پاس ہوتی ہو گی، وہ مشیر تھیں وزارتِ اطلاعات و نشریات کی، ان کا عہدہ وفاقی وزیر کے برابر تھا، یہ کہنا کہ بحیثیت معاونِ خصوصی انہیں تین گاڑیاں رکھنے کی اجازت نہیں تھی، یہ الزام نہیں بلکہ مذاق ہے۔ 

اگلا الزام یہ لگایا گیا کہ انہوں نے سرکاری خرچ پر غیرقانونی طور پر 11ملازم اپنے گھریلو استعمال کیلیے رکھے ہوئے تھے، وہ منسٹر کانولی میں مقیم تھیں، وہاں کے بنگلے اتنے بڑے نہیں کہ ایک گھر میں گیارہ ملازم سما سکیں، پھر مالی اور خاکروب تو منسٹر کالونی کے اپنے ہیں، وہ کیسے پاکستان ٹیلی وژن کے بجٹ سے لیے گئے۔ 

پھر پی ٹی وی کے ساتھ تو ڈائریکٹ ان کا کوئی واسطہ ہی نہیں تھا۔ یہ کہنا بھی عجیب ہے کہ انہوں نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے پی ٹی وی میں اپنے اہل و عیال کی نا جائز بھرتیاں کیں۔ الزام لگانے والوں سے درخواست ہے کہ وہ یہ بھی بتادیں کہ پی ٹی وی میں محترمہ نے اپنے کون سے رشتہ دار ملازم کرائے ہیں۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ الزامات بھونڈے، غیرحقیقی ہیں تو پھر محترمہ کو ہٹایا کیوں گیا، کام کے معاملے میں تو انہوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی، ان کے آنے کے بعد میڈیا سے حکومتی مراسم میں بہتری آئی تھی، میرے نزدیک انہیں ہٹانے کا بنیادی سبب بیوروکریسی ہے جس کے لیے فردوس عاشق اعوان کو برداشت کرنا مشکل ہو گیا تھا۔ 

وہ دو مرتبہ پہلے وزیر رہ چکی تھیں، بیورو کریسی کی ایک ایک واردات سے واقف تھیں، ان کے سامنے کوئی بیوروکریٹ اپنی مرضی نہیں کر سکتا تھا، مجھے یاد ہے کہ ایک شام جب وہ، میں اور ان کی وزارت کے ایک بڑے بیوروکریٹ انہی کے گھر گپ شپ کررہے تھے تو میں نے وزیراعظم کے ایک قریبی افسر کے بارے میں کچھ باتیں کیں اور کہا کہ میں یہ ساری باتیں کالم میں لکھنا چاہ رہا ہوں۔ 

اُس بیوروکریٹ نے فوری طور پر محترمہ سے کہا، ’’اِنہیں روکیں، یہ آپ کیلیے خطرناک ہوگا‘‘ تو انہوں نے کہا: میرے لیے کیوں، میں تھوڑی لکھوا رہی ہوں، منصور آفاق کو پی ٹی آئی کے حق میں لکھتے ہوئے 10 سال سے زیادہ عرصہ ہو چکا ہے، دوسرا، یہ میانوالی کے ہیں، وہاں عمران خان کے ہمسائے ہیں، یہ جانیں اور خان جانیں۔

اس کالم کے شائع ہونے والے دن جب اُسی افسر سے اس کے آفس میں میری ملاقات ہوئی تو اس نے مجھے کہا ’’میرا لیڈر وزیراعظم ہاؤس کا ایک بڑا افسر ہے‘‘۔ مجھے اسی وقت اس بات کی سمجھ آ گئی تھی کہ اب فردوس عاشق اعوان کی باری لگ گئی ہے۔

 بیشک اس وقت بیورو کریسی کا وزیراعظم عمران خان نہیں بلکہ ایک بیورو کریٹ ہے، ایک دن میں وزارتِ اطلاعات کے ایک افسر کے دفتر میں بیٹھا تھا، تو ایک افسر اطلاعات اندر داخل ہوا، چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔ 

لگ رہا تھا کہ کسی مشکل سے نکل کر آرہا ہے، میں نے پوچھ لیا ’’خیریت تو ہے نا‘‘ کہنے لگا ’’اپنے باسز کی چپقلش سے تنگ آ گیا ہوں‘‘۔ میں نے کہا ’’جناب کی باس تو فردوس عاشق اعوان نہیں ہے‘‘ پریشانی سے سر ہلا کر بولا ’’کچھ لوگ وزیراعظم سیکرٹریٹ میں بھی بیٹھے ہوئے ہیں‘‘۔

بہرحال اقتدار کے ایوانوں میں سازشیں جاری رہتی ہیں۔ کبھی کوئی کامیاب ہو جاتا ہے کبھی کوئی، لیکن اسٹیبلشمنٹ سے واسطہ رکھنے والے کسی نہ کسی طرح دوبارہ واپس آ ہی جاتے ہیں۔ فردوس عاشق اعوان کو ہٹا کر شبلی فراز کو وزارت دینے کا ایک مفہوم اور بھی ہے، وہ یہ کہ اب عمران خان نے مصالحت کی سیاست شروع کردی ہے۔

 پہلے عمران خان اپنی ٹیم میں ایسے افراد رکھنا پسند کرتے تھے جو حزبِ اختلاف میں گرجنے اور برسنے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے تھے، اب انہوں نے ایک ایسے شخص کو وزیر بنایا ہے جو مفاہمت کی سیاست کا قائل ہے جس کے وزیر بننے کا خیر مقدم نون لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں نے کیا ہے۔ 

یہ عمران خان کے رویے میں ایک بڑی تبدیلی ہے۔ اسی بدلتے ہوئے رویےکو دیکھتے ہوئے شاید کچھ لوگ قومی حکومت کے متعلق سوچنا شروع ہو گئے ہیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت تو ویسے ہی قومی حکومت ہے، اس میں مختلف پارٹیوں سے آئے ہوئے لوگ ہی وزیر اور مشیر ہیں۔ 

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ شبلی فراز صرف دکھانے کے لیے ہیں، کھانے کے لیے نہیں۔ بہرحال میں اتنا جانتا ہوں کہ پی ٹی آئی میں ابھی فردوس عاشق اعوان کا دور ختم نہیں ہوا، جلد یا بدیر عمران خان کو اپنا اسٹاف بدلنا ہوگا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔