02 مئی ، 2020
قارئینِ کرام! آئینِ نو کے جاری سلسلے ’’میر شکیل الرحمٰن کے قومی ’جرائم‘ کی گواہی‘‘ میں ہی نہیں اِس سے قبل بھی اِن سطور میں وقفے وقفے سے حکومت اور پاکستانی قوم پر تیزی سے بمطابق برپا تبدیلیوں کے ظہور پذیر عظیم ’’قومی ابلاغی ضرورتوں‘‘ اور اس حوالے سے موثر میڈیا اور اس کے ایک حد تک میڈیا سے بہتر تعلقات کی اہمیت کا احساس دلانے کی قلمی و علمی کاوش ہوتی رہی اور اِن قومی ابلاغی مسائل کی بھی جو قومی ابلاغی دھارے میں غلبہ پا رہے ہیں لیکن افسوس جیسے جیسے اس کی ضرورت کی شدت بڑھ رہی ہے، ویسے ویسے ہمارا نیشنل کمیونیکیشن فلو اور زیادہ پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے۔
حتیٰ کہ میڈیا کے مثبت فروغ سے، میڈیا CONFLICTکی شکل شعوری کوششوں کے ساتھ نکالی اور بڑھائی گئی، سابقہ چار منتخب حکومتوں نے میڈیا کو اپنے چمکدار ’’پوٹنیشل‘‘ سے اپنی ضرورتوں کے مطابق مرضی کے مطابق مغلوب کرنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی، لیکن بدترین گورننس، کرپشن کی نشاندہی اور مطلوب احتساب، قومی ایجنڈا بن کر رہا ہے۔
کیا یہ بغیر میڈیا کے نئے اور بمطابق حالات ایجنڈے (قومی ضرورتوں) کے بغیر ہوا؟ اس میں کوئی شک ہے؟ ہے تو باقاعدہ تحقیق اس امر کو باآسانی ثابت کردے گی کہ اس ایجنڈا سیٹنگ میں ملک کے سب سے بڑے میڈیا گروپ جنگ/ جیو نے ہی آغاز اور ناقابلِ تردید ثبوتوں کی بھرمار سے تحقیقاتی رپورٹنگ کی راہ پورے ملکی میڈیا کو دکھائی اور اس پر وزیراعظم عمران خان کے بطور اپوزیشن لیڈر برائے تبدیلی کے اعترافات اور توصیف پر مبنی کتنے ہی کھلے کھلے بیانات میڈیا آرکائیوز میں موجود ہیں۔
بدنصیبی یہ ہے کہ ملکی میڈیا کا حجم اتنا بڑھنے، نئی سے نئی ٹیکنالوجی متعارف اور اختیار ہونے اور حکومتی و نجی معقول سرمائے کا رُخ بھی ادھر ہونے کے باوجود ’’قومی ابلاغی دھارا‘‘ پیچیدہ ہوتا گیا اور حکومتی میڈیا منیجر جو وسیع تر قومی اور حکومتی بھی، مفادات کے حصول کے ذمے دار تھے۔
اسٹیٹس کو کی بیمار اندازِ حکومت اور منتخب حکمرانوں کے گروہی حتیٰ کہ خاندانی مفادات کے اسیر ہو کر بڑے سے بڑا ڈیزاسٹر کرتے رہے۔ پھر ’’بدترین جمہوریت‘‘ کے ماڈل میں بھی میڈیا کی اس ’’بدترین‘‘ کی مسلسل نشاندہی پر انہوں نے اپنی سمت تو درست کرنے پر کوئی توجہ نہ دی اُلٹا میڈیا کا قبلہ اپنی مرضی کے مطابق درست کرنے کی مہم جوئی میں اپنی ہی حکمرانی کے بدترین ہونے کے ثبوت خود ہی فراہم کرتے رہے۔
مایوسی اس وقت بےحد ہوئی کہ جب تبدیلی کی علمبردار عمران حکومت نے بھی میڈیا کے بھرپور کردار سے برسراقتدار آ کر بھی میڈیا کو حسبِ روایت اپنے فریم میں لا کر چلانے کی ایک سے بڑھ کر ایک بھونڈی کوشش کی جو مسلسل ناکام ہوتی رہی۔
اوپر سے اپنے ہی حکومتی سیٹ اپ میں ابلاغی معاونت کا مضحکہ خیز ڈھانچہ ایسا بنایا جو تبدیلی حکومت کے پہلے دو برسوں سے اپنی نیشنل کمیونیکیشن اینڈ میڈیا پالیسی نہیں بلکہ مخصوص حکومتی رویے ہی بہت نازک ملکی اور خطے کے حساس حالات میں بھی قومی ابلاغی دھارے کو اور زیادہ پیچیدہ اور تشویشناک بناتا رہا۔
میڈیا مخاصمت، حکومت، میڈیا ریلیشنز میں کھچائو، میڈیا اکانومی کو جھٹکا اور صحافی کارکنوں کی بڑی بھاری تعداد میں معاشی تنگ دستی، دبلے ہوتے اخبارات اور الیکٹرونک میڈیا میں تیزی سے بڑھتی اور غالب کج بحثی اس کا منفی حاصل نکلا۔
اس پسِ منظر میں انتہا یہاں تک ہوئی کہ ملک کے سب سے بڑے میڈیا گروپ جس کے مثبت کردار اور موجود ایڈیٹرانچیف میر شکیل الرحمٰن کو 34سالہ ایک کیس میں ’’نیب‘‘ نے کرپشن کا الزام لگا کر احاطہ عدالت میں ایک روز بعد دوسری حاضری پر ہی گرفتار کر لیا جس کی کوئی ایف آئی آر بھی درج نہ تھی، اس سے زیادہ غیرقانونی حربہ اور کیا ہو سکتا ہے؟
آئین و قانون کی بالادستی ہمارے قومی سیاسی ابلاغ کا متفقہ بیانیہ بننے کے بعد ’’نیب‘‘ کا یہ غیرقانونی اقدام ہمیں کتنا پیچھے لے گیا ہے؟ اور خود ’’نیب‘‘ مردہ سے زندہ ہونے اور ملکی میڈیا کے مجموعی ایجنڈے میں بلند درجے پر جگہ بنانے کے بعد کس طرح دھڑام سے اس کے یقین و اعتبار کا گراف نیچے آیا ہے۔
کوئی ہوش حکومت کو نہ ہوا کہ اس سے ’’احتسابی عمل‘‘ کی کریڈیبلٹی کو کتنا دھچکہ لگا۔ میر شکیل الرحمٰن کو بڑی مہم جوئی سے گرفتار کیے اور اُنہیں سخت تنقید کا نشانہ بنتے اقدام سے زیر حراست رکھے 50دن ہو گئے ہیں۔
اس کے ملک کے سب سے بڑے اور مختلف النوع قومی خدمات انجام دینے والے حقیقی ارتقا کے حامل سب سے بڑے میڈیا گروپ اور پوری میڈیا انڈسٹری، اس کے ہیومن ریوریس پر اتنے منفی اثرات ہوئے ہیں کہ اُن کی شدت نے شاید حکومت کو بھی احساس دلا دیا کہ وہ اپنے میڈیا منیجر تبدیل کرنے پر آمادہ ہو گئی۔
اس حوالے سے خوش گوار امید افزا حد تک دو بڑی معقول اور غیرمتنازع بلکہ قابلِ تحسین تبدیلیاں وزیراعظم عمران خان نے اپنے گورننس سیٹ اپ کے ابلاغی ڈھانچے میں کی ہیں۔
سینیٹر شبلی فراز کی بطور وزیر اطلاعات کابینہ میں شمولیت اور میڈیا امور کا تجربہ رکھنے والے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ کی تقرری کو جس طرح اپوزیشن جماعتوں اور خود میڈیا نے قابلِ قبول اور اُمید افزا تبدیلی قرار دے کر شاید وزیراعظم کے کسی اقدام کا پہلی بار خیر مقدم کیا ہے۔
اس کے پیشِ نظر توقع ہے کہ ہر دو حکومتی ٹاپ میڈیا منیجر، میڈیا کی جانب جاری روایتی حکومتی رویے میں تبدیلی لاکر حکومت میڈیا گیپ اور تلخ تعلق کو ختم کرنے اور مطلوب درجے کے ناگزیر تعلق کی صورت پیدا کرنے میں اپنی بلند درجے کی قبولیت مہارت اور فنِ مفاہمت سے مطلوب بڑی قومی ابلاغی ضرورتوں کو پورا کرنے میں اہم کردار ادا کریں گے۔
اس کا آغاز ’’نیب‘‘ کو میڈیا کو مرضی سے چلانے کے لئے پریشر ٹول کے طور پر استعمال کرنے کے حربے کو فوری ترک کرکے میر صاحب کی بلاتاخیر رہائی کی راہ نکال کر مطلوب فضا بنانے کی فوری ضرورت ہے۔
نئے وزیر اطلاعات شبلی فراز کا یہ اعلان اور اس پر عید سے پہلے عملدرآمد کا یقین کہ حکومت شدید معاشی مشکلات میں آئے صحافی کارکنوں کو موجودہ بحرانی کیفیت میں شدید دبائو سے نکالنے کے لئے حکومت پر میڈیا انڈسٹری کے اربوں روپے کی واجب الادا رقوم کی ادائیگی عید سے پہلے کردی جائے گی، یقیناً تازہ ہوا کا جھونکا، میڈیا کو مطلوب سپیس دینے اور قومی ابلاغی ضروریات پوری ہونے کی جانب نتیجہ خیز اقدام ہوگا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔