04 مئی ، 2020
پاکستان کے نامور شاعر انور مسعود کے بیٹے عمار مسعود کا گزشتہ روز اپنی والدہ محترمہ کی وفات پر جنگ میں شائع ہونے والا کالم ’’امی‘‘ پڑھا تو ایک بار پھر یہ یقین تازہ ہو گیا کہ مائیں واقعی سانجھی ہوتی ہے۔
میں عمار مسعود کے لکھے ہوئے الفاظ پڑھ رہا تھا لیکن میرے دل و دماغ پہ میری اپنی ماں کا نقش چھایا ہوا تھا۔ دل سے ایک آہ نکلی کہ کاش میری ماں زندہ ہوتیں اورمیرے پاس ہوتیں اور میں اُن سے اُسی طرح لاڈ پیار کر رہا ہوتا جو 2011ء میں اُن کی وفات تک میرا معمول تھا۔
رات کو سویا تو میری ماں میرے خواب میں آئیں۔ خواب بس اتنا سا تھا کہ میں نے اپنی ماں کو گلے لگایا ہوا تھا۔ آنکھ کھلی تو میں خوشی اور اطمینان کے احساس سے بھرپور تھا اور اُنہی احساسات کے ساتھ دوبارہ سو گیا۔ گھر میں سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے مجھے میرے رب نے خوب موقع دیا کہ اپنے ماں باپ جب تک وہ زندہ رہے، سے پیار کا اظہار کروں۔
والد محترم تو 1981ء میں جب میں کوئی پندرہ سولہ سال کا تھا، فوت ہو گئے تھے لیکن اللہ نے کرم کیا اور ماں کا سایہ ہمارے سر پر 2011ء تک سلامت رکھا۔ جب تک ماں زندہ تھیں تو اکثر و بیشتر میرے والد میرے خواب میں آتے اور عموماً خواب یہی ہوتا کہ وہ زندہ ہو کر واپس ہمارے پاس آ گئے ہیں۔
اگرچہ خواب میں بھی میرے لیے یہ بات غیر یقینی ہوتی تھی لیکن میں بہت خوش ہوتا تھا۔ جب آنکھ کھلتی تو بہت دکھی ہوتا۔ ہر بار میرے ساتھ یہی ہوتا۔ جب سے میری ماں فوت ہوئی ہیںمیں نے شاید ہی کبھی اپنے والد کو خواب میں دیکھا ہو۔
ماں بھی خواب میں بہت کم نظر آتی ہیں، اس لیے عمار مسعود کا شکریہ جن کا کالم پڑھنے کے بعد میرے رب نے مجھے خواب میں ماں سے ملوا دیا اور وہ بھی ایسے کہ میں خوش ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ عمار مسعود کی والدہ مرحومہ، میرے والدین اور ہر کلمہ گو کے والدین جو اُن سے بچھڑ چکے ہیں، کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے، آمین! اور جن کے والدین زندہ ہیں اُنہیں اُن کی خدمت کے ساتھ ساتھ اُن سے خوب محبت کے اظہار کا موقع دے۔
جو کچھ ماں باپ اپنے بچوں کے لیے کرتے ہیں اُس کا بدلہ دینا تو اولاد کے لیے ممکن ہی نہیں ہو سکتا لیکن جہاں بچوں کا فرض ہوتا ہے کہ اپنے ماں باپ کی خدمت کریں، اُن کا خیال رکھیں۔
اُن کی ضروریات کو پورا کریں وہاں والدین کے ساتھ محبت کا اظہار بھی بہت ضروری ہے۔ مجھے اس بات کی بہت خوشی ہے کہ میں نے اپنے ماں باپ کے ساتھ محبت کا خوب اظہار کیا۔
خصوصاً میری والدہ جن کے ساتھ رہنے کا مجھے اللہ نے کافی موقع دیا، اُن سے تو میں نے آخر دم تک خوب لاڈ پیار کیا۔ روزانہ اُن کے پاس دیر تک بیٹھتا، اُن کی ڈانٹ بھی کھاتا لیکن کبھی اُنہیں گلے لگاتا، کبھی پیار کرتا جو میرے لیے ایک سرمایہ سے کم نہیں۔
میں نے ایک بار پہلے بھی اس بات کا اپنے کالم میں ذکر کیا تھا کہ اپنی بیماری کے آخری چند ماہ کے دوران میری والدہ میں ایک ایسی تبدیلی آئی جو میرے لیے تو اتنا بڑا تحفہ تھا کہ وہ میری زندگی کی بہت بڑی خوشی کا باعث ہے اور میں جب بھی اُسے یاد کرتا ہوں تو اپنے رب کا شکر ادا کرتا ہوں کہ میرے رب نے مجھ پر کتنا بڑا کرم کیا۔
میری ماں اپنے سب بچوں سے بے انتہا محبت کرتی تھیں اور سب بچے بھی‘ جب تک وہ زندہ رہیں اُن کی بہت خدمت کرتے رہے اور اُن سے پیار بھی کرتے رہے۔ مائیں اپنے اولاد سے ایک سی محبت کرتی ہیں لیکن چھوٹا ہونے کے ناتے میں زبردستی اپنی ماں سے لاڈ پیار کرتا بھی تھا اور کروا بھی لیتا تھا۔
اپنی زندگی کے آخری چند ہفتوں کے دوران میری ماں نجانے کیوں مجھے بار بار اپنے پاس بلاتیں اور کبھی مجھے ماتھے پر اور کبھی گال پر پیار کرتیں اور یہ دن میں کئی بار ہوتا۔ یہ صرف میرے ساتھ ہی ہوتا، وہ مجھے کہتیں بھی کہ تم مجھے سب سے اچھے لگتے ہو۔
میرے بہن بھائیوں نے میری ماں کی خدمت مجھ سے بہت زیادہ کی اور زندگی بھر ہماری ماں نے ساری اولاد کو ایک سی محبت دی لیکن کینسر کی بیماری نے اُن کے دماغ کو آخری ہفتوں میں کچھ اس طرح متاثر کیا کہ میرے لیے میری ماں کی محبت بہت جاگ اٹھی اور وہ مجھے بار بار پیار کرنے لگیں۔ جب میں یہ سوچتا ہوں تو مجھے ایک ایسی خوشی کا احساس ہوتا ہے جسے الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں۔
مجھے وہ لوگ اچھے نہیں لگتے جو اپنے ماں باپ کے حق میں اچھے نہیں ہوتے۔ کوئی ویسے کیسا بھی ہو لیکن جب مجھے یہ پتا چل جائے کہ وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ بہت اچھا ہے اور اُن کی خدمت کرتا ہے تو مجھے وہ اچھا لگنے لگتا ہے۔
جن کے والدین زندہ ہیں میری اُن سے گزارش ہے کہ اُن کی خوب خدمت کریں، اُن سے پیار کا اظہار بھی کریں اور چاہے والدین ڈانٹیں بھی اکیلے میں یا دوسروں کے سامنے‘ اس پر ذرہ برابر بھی بُرا نہ منائیں بلکہ ہنسی سے اپنے ماں باپ کی ڈانٹ کو ویلکم کریں۔
مجھ جیسے جن کے والدین اس دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں، اُن کے لیے میری دعا ہے کہ اللہ ہمیں اپنے والدین کے لیے صدقہ جاریہ بننے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔