'پاکستان ہاکی میں سینیئر کھلاڑیوں کا رویہ جونیئرز کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ تھا'

 پاکستان ہاکی کا کلچر کچھ ایسا تھا کہ اگر ایک سینیئر نے پاس مانگ لیا تو جونیئر پر واجب تھا کہ وہ ہرحال میں اسے گیند پاس کرے،رولینٹ اولٹمینز،فوٹو:فائل

پاکستان ہاکی ٹیم کے سابق کوچ رولینٹ اولٹمینز کا کہنا ہے کہ پاکستان ہاکی میں سینیئر کھلاڑیوں کا رویہ جونیئرز کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ تھا، نوجوان کھلاڑی سینیئرز کی ہدایت تک محدود رہتے  جس کی وجہ سے ان کے اپنے کھیل میں نکھار پیدا نہیں ہوسکتا تھا۔

خیال رہے کہ ہالینڈ سے تعلق ر کھنے والے رولینٹ اولٹمینز 2 مرتبہ پاکستان ہاکی ٹیم کے کوچ رہے چکے ہیں، پہلے 2004 اور پھر 2018 میں انہوں نے گرین شرٹس کی کوچنگ کی۔

پاکستان ہاکی ٹیم کے سابق کپتان سلمان اکبر کے ساتھ انسٹاگرام پر لائیو سیشن میں گفتگو کرتے ہوئے رولینٹ اولٹمینز کا کہنا تھاکہ پاکستان میں ہر کوئی اولمپک گولڈ میڈل اور ورلڈ کپ جیتنا چاہتا ہے اور یہ سب حاصل بھی راتوں رات کرنے کی خواہش ہے لیکن ایسا ممکن نہیں ہوسکتا۔

 اولٹمینز نے کہا کہ انہوں نے یہ بات نوٹ کی کہ پاکستان ہاکی کا کلچر کچھ ایسا تھا کہ اگر ایک سینیئر نے پاس مانگ لیا تو جونیئر پر واجب تھا کہ وہ ہرحال میں اسے گیند پاس کرے، چاہے اس کے سامنے پانچ ڈیفینڈرز ہی کیوں نہ کھڑے ہوں۔ 

اس عمل کی وجہ سے جونیئرز کا اپنا کھیل نہیں بہتر ہوسکا اور وہ صرف اس تک محدود رہ گئے جس کی سینیئرز ان کو اجازت دیا کرتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں انتظامیہ شاید اس بات کا احساس نہیں کرتی کہ بڑا ٹائٹل جیتنے کے لیے وقت بھی بڑا درکار ہے، جب کوچ تھا تو کہا جاتا تھا کہ اس سے زیادہ سہولیات نہیں دے سکتے اور جو سہولیات دیتے تھے وہ کسی بھی ٹاپ ٹیم  کے لیےناکافی تھیں۔ 

رولینٹ اولٹمینز کے مطابق پاکستان ہاکی انتظامیہ اگر  آج پلاننگ کا آغاز کرے تو 2032ء اولمپکس میں کسی پوزیشن میں ہوسکتے ہیں۔

قومی ہاکی ٹیم کے سابق کوچ کا کہنا تھا کہ کھلاڑیوں کو سہولیات دینا بہت ضروری ہے، ایک ایسا ماحول بنایا جائے جس میں وہ اپنی بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ کرسکیں۔

'جدید تقاضوں کے مطابق سسٹم بنانے کی ضرورت ہے '

انہوں نے کہا کے پاکستانی کھلاڑیوں میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں لیکن ہاکی میں کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ جدید تقاضوں کے مطابق باقاعدہ سسٹم بنایا جائے۔

 ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ، بھارت سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے کہ وہاں ہاکی کی بہتری کے لیے کس طرح سرمایہ کاری کی گئی ہے۔

'سابق اولمپیئنز سے معاملات کرنا بھی چیلنج تھا' 

انہوں نے اپنے ادوار میں سلیکشن کمیٹی میں شامل سابق اولمپیئنز سے معاملات کو بھی ایک چیلنج قرار دیا اور کہا کہ وہ کبھی بھی روایتی ٹرائلز کے حق میں نہیں ہوا کرتے تھے اور انہیں اس بات پر اعتراض رہا ہے کہ جس وقت کھلاڑی کو آرام کرنا چاہیے اس وقت ان کو ٹرائلز میں لگادیا جاتا ہے۔

سلمان اکبر نے رولینٹ اولٹمینز سے سوال کیا کہ کوئی ایسا کھلاڑی بتائیں جس نے اپنے ٹیلنٹ کا مکمل فائدہ نہیں اٹھایا تو سابق کوچ نے طارق عزیز کا نام لیتے ہوئے کہا کہ وہ ایک بہترین اور باصلاحیت کھلاڑی تھے لیکن انہوں نے اپنے ٹیلنٹ کا ٹھیک طرح استعمال نہیں کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ کوئی ایسا میچ نہیں ہوتا تھا جس میں طارق کو کارڈ نہ ملے، ایک بار جونیئر ورلڈ کپ میں طارق کو کہا کہ اگر اس نے پورے ٹورنامنٹ میں کوئی یلو کارڈ نہیں لیا تو اسے 100 یورو کا انعام دیا جائے گا لیکن طارق نے پہلے میچ کے 5 منٹ میں ہی کارڈ حاصل کرلیا۔

مزید خبریں :