07 مئی ، 2020
ایک دفعہ پھر پاکستان کے ایک نامور صحافی نے صحافیوں کے احتساب کا مطالبہ کر دیا ہے۔ کالم نگار اور ٹی وی اینکر جاوید چوہدری نے اپنے مقبول کالم کے ذریعہ وزیراعظم عمران خان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ شوق سے صحافیوں کا احتساب کریں۔
جن اہلِ صحافت نے ماضی کی حکومتوں سے ناجائز مراعات اور رشوتیں وصول کیں اُنہیں قانون کے کٹہرے میں لایا جائے اور اُن کی فہرستیں بھی شائع کی جائیں لیکن سوشل میڈیا کے ذریعے صحافیوں کے خلاف بے بنیاد الزامات اور گالم گلوچ کا سلسلہ بند کیا جائے۔ یہ خاکسار جاوید چوہدری کے مطالبے کی بھرپور حمایت کرتا ہے۔
میں صحافیوں کے احتساب کا مطالبہ 1996سے کر رہا ہوں۔ نومبر 1996میں اُس وقت کے صدر فاروق لغاری نے محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت برطرف کی تو میں روزنامہ پاکستان (اسلام آباد) کا ایڈیٹر تھا۔ ایک دن صدر صاحب نے کچھ اخبارات کے ایڈیٹرز کو ملاقات کے لئے بلایا تو میں نے اُن سے گزارش کی پاکستان میں صرف سیاستدانوں کا احتساب کیوں ہوتا ہے؟
جرنیلوں، ججوں اور جرنلسٹوں کا احتساب کیوں نہیں ہوتا؟ صدر صاحب نے پوچھا آپ کیا چاہتے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ آج کل کچھ لوگ ’’پہلے احتساب پھر انتخاب‘‘ کا نعرہ لگا رہے ہیں اگر آپ نے واقعی بےرحمانہ احتساب کرنا ہے تو پھر ہمارا احتساب بھی کریں اور میں اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کرتا ہوں۔
میری بات سُن کر صدر صاحب سمیت کچھ بزرگ ایڈیٹر صاحبان ہنس پڑے۔ فاروق لغاری صاحب نے جو نگران حکومت قائم کی تھی اُس کے وزیر اطلاعات جناب ارشاد احمد حقانی تھے اور مشیر برائے احتساب جناب نجم سیٹھی تھے۔
دو صحافی حکومت میں شامل تھے، یہ حکومت صحافیوں کا کیا احتساب کرتی؟ 2012میں اُس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری پر پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض نے کچھ الزامات لگا دیے۔ ان الزامات نے میڈیا کو تقسیم کر دیا۔
کچھ صحافی ملک ریاض کی حمایت کرنے لگے، میں چیف جسٹس کی حمایت کر رہا تھا۔ نواز شریف اور عمران خان بھی چیف جسٹس کے ساتھ کھڑے تھے۔ ایک شام عمران خان نے جیو نیوز پر کیپٹل ٹاک میں افتخار محمد چوہدری پر الزامات کو ایک منظم مہم کا حصہ قرار دے دیا۔
اگلے دن چیف جسٹس صاحب نے مجھ سمیت کچھ دیگر صحافیوں کو عدالت میں طلب کر لیا اور کہا کہ جس کے پاس جو سچ ہے وہ سامنے لے آئے۔ یہ معاملہ زیر سماعت تھا کہ سوشل میڈیا پر ایک فہرست گردش کرنے لگی جس میں میرے علاوہ کامران خان، نجم سیٹھی، حسن نثار، سہیل وڑائچ، آفتاب اقبال، مظہر عباس، منیب فاروق، کاشف عباسی، مہر بخاری، ڈاکٹر شاہد مسعود، مبشر لقمان، عاصمہ شیرازی، ارشد شریف، جاوید چودھری، نصرت جاوید، مشتاق منہاس، ماروی سرمد، ثنا بُچہ اور سمیع ابراہیم کے نام شامل تھے اور الزام یہ لگایا گیا کہ ان اینکرز نے ملک ریاض سے بحریہ ٹائون میں پلاٹ اور بھاری رقوم وصول کی ہیں۔
میرے کھاتے میں پانچ کنال کا پلاٹ اور اڑھائی کروڑ روپے ڈال دیے گئے اور بینک کا نام اور اکائونٹ نمبر درج کر دیا گیا جہاں سے مبینہ طور پر میرے نام پیسے ٹرانسفر کئے گئے۔
ایک ٹی وی چینل نے ہمارا موقف لئے بغیر یہ فہرست نشر بھی کر دی۔ اس فہرست میں لگائے گئے الزامات کی تصدیق مشکل نہیں تھی۔ جس بینک کا نام درج تھا اُس سے تفصیل طلب کی جا سکتی تھی لیکن یہ زحمت کئے بغیر ہی سوشل میڈیا پر الزام بازی شروع ہو گئی۔ کراچی سے شائع ہونے والے ’’نیوز لائن‘‘ میگزین نے میڈیا گیٹ کے نام سے ٹائٹل اسٹوری شائع کر دی۔
اس فہرست کا مقصد میڈیا کی ساکھ خراب کرنا نظر آ رہا تھا۔ فہرست میں کسی ٹی وی چینل یا اخبار کے مالک کا نام نہ تھا۔ ہم نے ایف آئی اے کے ذریعے معلوم کرنے کی کوشش کی کہ اس فہرست کے پیچھے کون ہے؟
کسی نے ہماری کوئی مدد نہ کی لہٰذا میں نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کر دی کہ مجھ سمیت تمام ٹی وی اینکرز، کالم نگاروں، میڈیا مالکان اور ایڈیٹروں کا احتساب کیا جائے اور ایف بی آر کے ذریعے تحقیقات کرائی جائیں کہ ہمارے پاس جو جائیداد اور پیسہ موجود ہے وہ ہم نے کیسے بنایا ہے؟ درخواست میں یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ وزارتِ اطلاعات نے صحافیوں کو رشوت دینے کے لئے جو سیکرٹ فنڈ قائم کر رکھا ہے وہ بند کیا جائے۔
میڈیا کا ضابطہ اخلاق بنایا جائے اور پیمرا کو ایک آزاد و خود مختار ادارہ بنایا جائے۔ عدالت نے 58ٹی وی چینلز کے مالکان سمیت کئی اینکرز کو نوٹس جاری کر دیے اور ملک ریاض سے بھی جواب طلب کیا گیا۔ 23اگست 2012کو ملک ریاض کے وکیل زاہد بخاری نے ایک تحریری جواب میں سپریم کورٹ کو بتایا کہ اُنہوں نے سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی فہرست میں شامل کسی اینکر کو پلاٹ یا رقم نہیں دی۔
پیپلز پارٹی کی حکومت نے مجھ سے رابطہ کیا اور کہا کہ بحریہ ٹائون کی وضاحت آ گئی ہے اب آپ میڈیا کمیشن کے قیام اور سیکرٹ فنڈ ختم کرنے کا مطالبہ چھوڑ دیں لیکن میں نے انکار کر دیا۔ 6ستمبر 2012کو سپریم کورٹ نے وزارتِ اطلاعات کا سیکرٹ فنڈ منجمد کر دیا۔
اس کیس کی سماعت کئی سال تک ہوئی۔ اگست 2015میں سپریم کورٹ کے حکم پر ضابطہ اخلاق بھی نافذ ہو گیا اور جون 2018میں پیمرا کے قانون میں بھی تبدیلی ہو گئی۔ اس مقدمے کی سماعت کے دوران چھ وزرائے اعظم بدلے اور چھ چیف جسٹس بدلے۔ سو سے زائد سماعتوں کے دوران زید حامد سمیت کئی لوگ فریق بن گئے اور ہم پر غداری کے الزامات بھی لگائے۔ جب عدالت نے ثبوت مانگے تو کوئی ثبوت سامنے نہ آیا۔
اس کیس کی سماعت کے دوران ایک میڈیا کمیشن بنایا گیا جس کی رپورٹ 2013میں آ گئی تھی۔ اس رپورٹ پر نہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے عمل درآمد کیا نہ عمران خان کی حکومت نے، حالانکہ میڈیا کمیشن نے پاکستان کے میڈیا میں اصلاحات اور اسے صاف شفاف بنانے کے لئے جو سفارشات مرتب کی ہیں اُنہیں کتابی صورت میں شائع کر کے کئی یونیورسٹیوں میں پڑھایا جا رہا ہے۔ اب آپ خود فیصلہ کیجئے۔
ہم اپنے احتساب کے لئے خود پاکستان کی سب سے بڑی عدالت میں چلے گئے۔ چھ سال تک کیس کی سماعت ہوئی۔ کوئی تو آتا، کرپشن یا ملک سے غداری کا ثبوت لے کر آتا اور ہمیں عبرت کی مثال بناتا لیکن الزام لگانے والے جھوٹے ثابت ہو گئے۔ اس دوران کمال یہ ہوا کہ ایف بی آر نے جاوید چودھری کو نوٹس دے دیا کہ آپ نے ملک ریاض سے پلاٹ اور رقم لی، اُس پر ٹیکس ادا کریں حالانکہ ملک ریاض عدالت میں اس کا انکار کر چکے تھے۔
ایف بی آر نے انکوائری کی تو اُس کا اپنا نوٹس غلط ثابت ہو گیا۔ جاوید چودھری سرخرو ہو گئے۔ عمران خان کی حکومت آئی تو ایف بی آر نے مجھے نوٹس دے دیا کہ آپ کی دبئی میں جائیداد نکل آئی ہے اس کا حساب دیں۔ بعد ازاں اُنہیں پتا چلا کہ یہ تو کوئی اور حامد میر تھا تو نوٹس واپس لے لیا لیکن سوشل میڈیا پر اس جائیداد کی جعلی کہانی ابھی تک چل رہی ہے۔
جب کرپشن ثابت نہیں کر پاتے تو پھر اپنے تنخواہ داروں کے ذریعہ الزام لگایا جاتا ہے کہ حامد میر نے اجمل قصاب کے گائوں میں جا کر پروگرام کیا۔ جب میں چیلنج کرتا ہوں کہ میں کبھی اجمل قصاب کے گائوں نہیں گیا تو پھر بنگلا دیش حکومت سے ایوارڈ کا قصہ لے بیٹھتے ہیں۔
یہ ایوارڈ صرف میرے والد کو نہیں، فیض احمد فیضؔ اور جیب جالبؔ کو بھی ملا جنہوں نے 1971کے فوجی آپریشن کی مخالفت کی۔ میرے والد نے پرویز مشرف کی طرح 2000میں ڈھاکا جا کر 1971میں مارے جانے والوں کی یادگار پر پھول نہیں چڑھائے تھے۔
یہ سب الزامات صرف اس لئے لگائے جاتے ہیں کہ ہم جو تھوڑا بہت سچ بولتے ہیں وہ بھی نہ بولیں، سوال کرنا چھوڑ دیں۔ ہم سوال کرنا نہیں چھوڑیں گے، آپ جھوٹے الزام لگانا نہیں چھوڑیں گے لیکن ایک دن سچ اور جھوٹ کا فیصلہ ضرور ہو گا۔
آج جاوید چوہدری اور حامد میر اپنے آپ کو پھر احتساب کے لئے پیش کر رہے ہیں۔ آئو ہمارا احتساب کرو۔ صرف الزام نہ لگائو، الزام کا ثبوت لا کر ہمیں عدالت سے سزا بھی دلائو۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔