Time 11 مئی ، 2020
بلاگ

کورونا خطرناک یا لاک ڈاؤن

 کورونا اور لاک ڈاؤن نے بہت بڑی تعداد میں ایسا طبقہ پیدا کر دیا ہے جو نہ ہاتھ پھیلائے گا، نہ مانگے گا—فوٹو اے ایف پی

کورونا نے اچھے اچھوں کو سفید پوش بنا دیا ہے، اس لیے جہاں تک ہو سکے اپنے عزیزوں، رشتہ داروں، ہمسایوں، جاننے والوں میں ایسے افراد کو ڈھونڈیں اور اُن کی خاموشی سے مدد کریں کیونکہ کچھ بھی ہو‘ وہ نہ مانگیں گے، نہ آٹا، چینی اور چاول لینے کے لیے کسی قطار میں کھڑے ہوں گے۔ 

غریب تو پہلے ہی واضح تھے، اُن میں سے بہت سے تو مانگ بھی لیتے ہیں، دوسرے اُن کی مدد بھی کر دیتے تھے لیکن کورونا اور لاک ڈائون نے بہت بڑی تعداد میں ایسا طبقہ پیدا کر دیا ہے جو نہ ہاتھ پھیلائے گا، نہ مانگے گا۔ اُن کی مشکل اگر کوئی معلوم کرنا چاہے تو اُس کے لیے اُن کے چہروں کو پڑھنا پڑے گا کیونکہ وہ سوال نہیں کریں گے، لیکن چہرے سے بھی حال کیسے معلوم کریں کیونکہ لاک ڈائون کی وجہ سے اب تو قریبی رشتہ داروں کا بھی آپس میں ملنا جلنا بہت کم ہو چکا ہے۔ اس لیے ہو سکتا ہے کہ ہمارے قریبی عزیز، رشتہ دار، ہمسایوں اور جاننے والوں میں ایسے لوگ موجود ہوں جو پہلے اپنا گزر بسر بہتر انداز میں کر لیا کرتے تھے لیکن کورونا نے اُن کے لیے مالی مشکلات کو بہت بڑھا دیا ہو۔ 

اگر کسی نے پیسہ بچا کر رکھا ہوا تھا تو پھر تو ٹھیک، کچھ عرصہ جب تک سیونگز ہیں، گزارا ہو سکتا ہے لیکن اُن کا کیا بنے گا جو پہلے اپنے ذریعہ معاش سے اچھا گزارا کر لیتے تھے لیکن اب چونکہ چند ماہ سے سب کاروبار بند پڑے ہیں، اس لیے اُن کے حالات جو پہلے اچھے تھے، یکدم خراب ہو گئے۔ لاکھوں نہیں شاید کروڑوں افراد پاکستان میں بیروزگار ہو گئے اور ان میں ایسے لوگوں کی تعداد بہت بڑی ہے جو سوال کرنے والوں میں نہیں آتے۔

حکومت، فلاحی ادارے اور مخیر حضرات‘ سب غریب طبقہ کے لیے جو بس میں ہے، کر رہے ہیں، اُنہیں کیش دیا جا رہا ہے، کھانے پینے کی اشیاء کے پیکٹ بھی تقسیم کیے جا رہے اور گھروں تک پہنچائے جا رہے ہیں لیکن اس میں وہ طبقہ شامل نہیں جس کا میں ذکر کر رہا ہوں۔ 

اس طبقہ کی مدد امداد حکومت اور فلاحی اداروں کے لیے کرنا بھی اس لیے مشکل ہے کہ اُنہیں identify کیسے کیا جائے کیونکہ وہ سوال کریں گے اور نہ ہی تقسیم ہونے والی خوراک کے لیے کسی قطار میں کھڑے ہوں گے۔ اس طبقہ کی تلاش اور اُن کی امداد کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ہم میں سے ہر فرد اپنے اردگرد دیکھے، اپنے بہن بھائیوں، رشتہ داروں اور ایسے ہمسایوں اور جاننے والوں کے حالات خاموشی سے معلوم کرنے کی کوشش کرے تاکہ جو ضرورت مند ہو اُس کو ادھار یا قرض حسنہ دے دیں یا اُس کی ویسے مدد کریں۔

لاک ڈائون اور سخت لاک ڈائون کے حق میں بات کرنے والوں کی اکثریت اُن افراد کی ہے جن کے اپنے حالات اللہ کے کرم سے اچھے ہیں یا اُن کا تعلق اُس تنخواہ دار طبقہ سے ہے جن کی نوکریاں ابھی لگی ہوئی ہیں، ورنہ یقین جانیں اس کورونا نے جو حالات پیدا کر دیے ہیں اُس سے اگر دنیا بھر میں بیماری اور مرنے کا خوف پیدا ہو گیا ہے تو دوسری طرف غربت میں اضافہ اور کاروبار کے بند ہونے سے بڑی تعداد میں لوگوں کو اس بات کی فکر لاحق ہو گئی ہے کہ وہ کھائیں گے کہاں سے۔ 

یہاں تو اچھے خاصے کاروباری افراد کو لاکھوں کروڑوں کا نقصان ہو چکا ہے، ہر گزرتے دن کے ساتھ کاروبار سے جڑے افراد کے حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔

کورونا تو ایک بیماری ہے جس کا وار نجانے ہم پر کتنا سخت ہوگا اور جو حالات ابھی تک سامنے آئے ہیں، مغرب اور امریکا کے برعکس ہمارے حالات کافی بہتر ہیں جس پر ہمیں اپنے رب کا شکر ادا کرنا چاہیے اور دعا کرنی چاہیے کہ یہاں حالات زیادہ خراب نہ ہوں لیکن یاد رکھیں کہ یہ لاک ڈائون کی پالیسی اگر امریکا و یورپ میں لمبے عرصے تک نہیں چل سکتی اور وہاں نرمی کی جا رہی ہے اور عوام بھی احتجاج پر اتر آئے ہیں تو یہاں تو حالات ہی بہت مختلف ہیں۔ 

پہلی بات تو یہ کہ ہمارا لاک ڈائون سخت ہو ہی نہیں سکتا جس کا مظاہرہ ہم پورے ملک میں دیکھ چکے ہیں۔ دوسری بات، دو ماہ لاک ڈائون کو ہو چکے لیکن اب بھی ایک طبقہ یہی کہہ رہا ہے کہ سخت لاک ڈائون جاری رکھیں۔ مجھے اس طبقہ کے اخلاص پر شک نہیں لیکن یہ صرف ملک کی معیشت کا مسئلہ نہیں بلکہ اصل ڈر یہ ہے کہ لوگوں کی معاشی زندگی اتنی خراب نہ ہو جائے کہ خدا نخوستہ یہاں لوٹ مار اور خانہ جنگی کے حالات پیدا ہو جائیں۔ 

لمبے عرصہ کے لاک ڈائون کی وجہ سے ایسے ہی حالات پیدا ہونے کا خطرہ ہے، ہر آنے والا دن مشکل سے مشکل ہوتا جائے گا۔ نہ حکومت اور نہ ہی فلاحی ادارے ایک لمبے عرصہ تک کے لیے اُس بھوک کو مٹا سکتے ہیں جو لاک ڈائون کی وجہ سے روز بروز زیادہ سے زیادہ ہوتی جا رہی ہے۔ 

اس لیے میری وفاقی و صوبائی حکومتوں کے ساتھ ساتھ تمام ذمہ داروں سے گزارش ہے کہ کاروبار کو زیادہ سے زیادہ کھولیں، معمولاتِ زندگی کو بحال کریں، لوگوں کو اپنا روزگار کمانے دیں۔ کوشش اور تمام تر توجہ صرف اس بات پر دیں کہ ممکنہ حد تک جو احتیاط ہو سکتی ہے، اُس کا نفاذ کریں۔ ایسا نہ ہو کہ کورونا سے بچاتے بچاتے لوٹ مار اور سنگین لا اینڈ آرڈر کے حالات پیدا کر دیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔