Time 11 مئی ، 2020
پاکستان

حل شدہ مسائل کو نہ چھیڑا جائے، 18ویں ترمیم آئین کا حصہ ہے: خواجہ آصف

مسلم لیگ (ن) کے رہنما و سابق وزیر خارجہ خواجہ آصف نے کہا ہے کہ 18 ویں ترمیم 2010 میں پاس ہوئی اور  صوبائی خودمختاری کا معاملہ حل ہوگیا لہٰذا حل شدہ مسئلوں کا نہ چھیڑا جائے۔

کورونا وائرس کی صورتحال پر ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب میں لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ جہاں امیگریشن ہوتی ہے، وہاں وفاقی ملازم ہوتا ہے اورجہاں سے یہ 78 فیصد سیلاب آیا، وہاں وفاقی ملازم کھڑے تھے، حکومت کی جانب سے گومگو کی کیفیت اپنائی گئی، ائیرپورٹس پر صحت اور دیگر عملہ وفاق کے ملازم ہوتےہیں لہٰذا شاہ محمود قریشی اپنا ریکارڈ درست کر لیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں ابھی کورونا وائرس کا عروج آنا ہے، دو ڈھائی ماہ کی غفلت کی وجہ سے آج  اِس صورتحال سے دو چار ہیں، اگر لاک ڈاؤن جاری رکھتے تو صورتحال اس نہج پر نہ پہنچتی، ہم دوسرے ممالک سے مماثلت نہیں کر سکتے کیونکہ ان ممالک میں کورونا وائرس اب زوال پذیر ہے۔

’سندھ بہادری سے مقابلہ کر رہا ہے لیکن یہاں تو کوئی پالیسی ہی نہیں ہے‘

شاہ محمود کے بیان پر تنقید کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہاکہ وزیرخارجہ کونہیں کہنا چاہیے کہ سندھ کارڈ کھیلا جارہا ہے، انہوں نے خطاب میں 8 سے 10 مرتبہ اٹھارویں ترمیم کی بات کی، 18 ویں ترمیم 2010 میں پاس ہوئی اور یہ صوبائی خودمختاری کا معاملہ حل ہوگیا لہٰذا حل شدہ مسئلوں کا نہ چھیڑا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ اتفاق رائے سے طے شدہ مسائل کو اِس طرح کی نیتوں کے ساتھ نہیں کھولاجاسکتا، اٹھارویں ترمیم آئین کا حصہ ہے، مشترکہ مفادات کونسل کی میٹنگ تک نہیں بلائی جاتی۔

خواجہ آصف نے مزید کہا کہ وزیر خارجہ کو پیپلز پارٹی پر صوبائیت کےبارے میں تنقید نہیں کرنی چاہیے تھی، سندھ بہادری سے مقابلہ کر رہا ہے لیکن یہاں تو کوئی پالیسی ہی نہیں ہے، پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (پی ایم ڈی سی) کو عدالت کے فیصلے کے باوجود بند کیا ہوا ہے، وزیراعظم صرف ایک میٹنگ میں آئے وہ بھی ادھوری چھوڑ کر چلے گئے۔

ان کا کہنا ہے کہ ہمیں بتایا گیا تھا کہ ٹیسٹنگ صلاحیت 50 ہزار روزانہ ہو جائے گی لیکن آج بتا رہے ہیں ٹیسٹنگ صلاحیت 20 ہزار روزانہ ہے، 30 ہزار کیسز اور 6 سو سے زیادہ اموات پر لاک ڈاؤن ختم کردیا، اس کنفیوژن کی کوئی وضاحت کر دے۔

’لمبی جنگ  کے شروع میں ہی ہمارے ہاتھ پاؤں پھول گئے ہیں‘

لیگی رہنما کا مزید کہنا تھا کہ لاک ڈاؤن ہے یا نہیں ہے، اسمارٹ لاک ڈاؤن کی کوئی گنجائش نہیں، حقیقت یہ ہے کہ بحران کے لیے ہمارے پاس کوئی منصوبہ یا استعداد نہیں ہے، بھارت سے اربوں روپے کی ادویات منگوانے پر رولا پڑا ہوا ہے، یہ لمبی جنگ ہے ہمارے ہاتھ پاؤں شروع سے پھول گئے ہیں، ہماری معیشت ڈیڑھ سال میں تباہ ہو چکی تھی، اوپر سے کورونا کی بیماری لگ گئی اور اب اس بحران کے دوران توجہ ہٹانے کے لیے دوسرے بحران پیدا کیے جا رہے ہیں۔

ڈاکٹرز کے حوالے سے خواجہ آصف نے کہا ہے کہ ڈاکٹرز اور طبی عملے کو سلام پیش کرتے ہیں، ہم نے کیا صف اول کے اس دستے کو ہتھیار فراہم کیے؟ آج بھی ان کے پاس حفاظتی کٹس موجود نہیں۔

 خواب میں بھی کچھ نظر آ جائے تو نیب میں اپوزیشن کی پیشیاں شروع ہو جاتی ہیں

قومی احتساب بیورو (نیب) پر تنقید کرتے ہوئے لیگی رکن رہنما کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کی گرفتاریاں جاری ہیں، نیب، ایف آئی اے آج بھی لگے ہوئے ہیں، حکومت میں تو سارے حاجی نمازی بیٹھے ہیں، اُن کا کیس نکل آئے تو انکوائری کمیشن کی توسیع ہو جاتی ہے، ہمارا تو خواب میں بھی کچھ نظر آ جائے تو پیشیاں شروع ہو جاتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کس قومی اتحاد کی بات کرتے ہیں؟ وزیراعظم کس چیز کا بدلہ اور انتقام لینا چاہتے ہیں؟ وزیر صحت بنانے کے لیے انہیں ایک بھی منتخب بندہ نظر نہیں آیا، بندے امپورٹ کیے جاتے ہیں، بابر اعوان پارلیمانی امور کے وزیر ہیں اور وہ پارلیمنٹ کے رکن ہی نہیں ہیں، کیا ان کو کوئی منتخب آدمی نہیں ملا مشیر بنانے کے لیے؟

خواجہ آصف کے بیان پر اپوزیشن ارکان نے شیم شیم کے نعرے لگائے۔

خیال رہے کہ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب میں کہا تھا کہ  جس پیپلزپارٹی سے وفاق کی خوشبو آتی تھی، آج صوبائی تعصب کی بو آرہی ہے، کورونا کے خلاف جنگ میں سندھ کارڈ یا صوبائی کارڈ نہیں چلے گا۔

مزید خبریں :