الٹی گنگا بہہ سکتی ہے

فوٹو فیس بک—

کہنے کو کیا نہیں ہو سکتا، الٹی گنگا بہہ سکتی ہے، لیزر گنوں اور ڈرون کے دور میں تیر اور تلوار سے جنگ لڑی جا سکتی ہے، بلٹ ٹرین اور تیز ترین کاروں کی موجودگی میں بیل گاڑی پر شہر جایا جا سکتا ہے، مہذب لباس پہننے کے بجائے لنگوٹ پہن کر پھرا جا سکتا ہے، پختہ گھروں کو چھوڑ کر غاروں میں پناہ لی جا سکتی ہے اور اگر ہم کرنے پر آ جائیں تو ہم اٹھارہویں ترمیم بھی ختم کر سکتے ہیں۔

زمانے کی چال دیکھیں تو دریائوں کو الٹا چلانے کے بجائے پانی کی مینجمنٹ ایسے کی جاتی ہے کہ ان کا سفر پہاڑ سے ڈھلوان کی طرف قدرتی بہائو کے مطابق ہو، اسی لیے آج تک کسی ایک نے الٹی گنگا بہانے کی کوشش نہیں کی۔ اسی طرح لوگ تلوار بازی اور تیر اندازی شوقیہ تو سیکھتے ہیں لیکن آٹو میٹک گنز کے اس دور میں کوئی تلوار اور تیر سے دشمن کا مقابلہ نہیں کرتا، وہ دور اب لَد چکا۔

علامہ اقبال کے استاد میر حسن سیالکوٹ سے علی گڑھ سر سید احمد خان سے ملنے کے لئے بیل گاڑی میں گئے اور کئی دن میں وہاں پہنچے، اب کوئی بھی ذی ہوش کاروں اور بسوں کو چھوڑ کر بیل گاڑیوں پر سفر نہیں کرتا۔ یہ زمانہ کب کا گزر چکا۔

سکھر بیراج تعمیر ہونا شروع ہوا تو وادیٔ سندھ کے باشندوں کی پہلی دفعہ تصاویر بنیں، سب نے اس وقت لنگوٹ پہن رکھے تھے مگر اب شاید ہی آپ کو شہر میں کوئی شخص لنگوٹ پہنے نظر آئے اور اگر کوئی نظر آئے گا تو وہ مخبوط الحواس ہوگا۔ انداز بدل گئے، وقت بدل گیا۔

کبھی انسان غاروں، جھونپڑیوں اور کچے مکانوں میں رہتا تھا اب اس نے ٹھکانہ بدل لیا۔ انہی بدلتے تقاضوں کے تحت ملکوں اور تہذیبوں نے اختیارات کے ارتکاز کے بجائے اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کا اصول اپنایا۔ پہلے مضبوط مرکز کا تصور تھا پھر صوبے مضبوط کیے گئے اور اب دنیا بھر میں اختیارات مزید نیچے یعنی بلدیاتی سطح پر منتقل کیے جا رہے ہیں۔

ساری دنیا میں یہی رجحان ہے مگر ہم 18ویں ترمیم ختم کر کے صوبوں کو دیے گئے اختیارات واپس مرکز کیلئے لینا چاہتے ہیں، ایسا ممکن تو ہے مگر یہ تاریخ کے دھارے کے خلاف چلنے کے مترادف ہوگا۔

یہ تاریخ کا پہیہ الٹا گھمانے کی طرح ہوگا۔ باپ بیٹے کو ایک بار اختیار دیدے، وراثت دیدے تو اس سے واپس لینی ناممکن ہو جاتی ہے۔ مرکز صوبوں کو مالی اور انتظامی اختیارات دے کر واپس لینا چاہتا ہے ایسا رضامندی اور خوشی سے ہونا ممکن نہیں۔

فرسٹ ورلڈ کے ممالک امریکہ، برطانیہ، یورپ اور اسکینڈے نیویا کے تمام ممالک میں زیادہ تر اختیارات بلدیاتی اداروں کے پاس ہیں، پھر ریاستیں یا صوبے ہیں وہ بھی بہت طاقتور ہیں ہر جگہ پر متحرک مرکز ہے مگر اس کے پاس مالی اور انتظامی اختیارات کم ہیں، ہاں! اس کے پاس خارجہ اور دفاع کے امور کے مکمل مالی اور انتظامی اختیارات ہیں۔

1973ء کے آئین کی تشکیل کے وقت صوبوں کی خودمختاری پر کافی اختلافات تھے۔ سندھ، بلوچستان اور پختونخوا کے رہنما صوبوں کو زیادہ اختیارات دینے کے حامی تھے بالآخر یہ طے ہوا کہ دس سال کیلئے عبوری طور پر یہ اختیارات مرکز کو دے دیئے جائیں بعد ازاں صوبوں کو یہ اختیارات منتقل کر دیئے جائیں گے مگر یہ دس سال پھیلتے پھیلتے 4دہائیوںپر محیط ہوگئے اور پھر کہیں 18ویں ترمیم کے بعد یہ اختیارات صوبوں کو منتقل ہوئے۔

آج کل پھر بحث چلی ہوئی ہے کہ 18ویں ترمیم ختم کر کے مرکز کو دوبارہ مضبوط بنایا جائے۔ کیا ہم بلوچستان کے احساس محرومی، پشتون جدوجہد اور سندھی شکایات کو نظر انداز کر دیں گے؟ ایسا ممکن نہیں ہوگا۔ المیہ مشرقی پاکستان صوبائی خودمختاری نہ دینے ہی کا نتیجہ تھا، اس سے سبق سیکھ کر 1973ء کا آئین بنایا گیا اور پھر 18ویں ترمیم کے ذریعے چھوٹے صوبوں کو مطمئن کیا گیا۔

اٹھارہویں ترمیم کے بعد یہ جائز سوال اٹھا کہ صوبوں کے پاس وسائل تو آ گئے ہیں لیکن وہاں صلاحیت کی کمی ہے جس کی وجہ سے وسائل کا ضیاع ہو رہا ہے۔ بظاہر یہ بات درست لگتی ہے لیکن اس کا حل یہ ہے کہ صوبوں کی صلاحیت بڑھائی جائے، وفاق سے صوبوں کو تربیت دلائی جائے نہ کہ سب کچھ چھین کر دوبارہ مرکز کی طرف لے جایا جائے۔

صوبوں میں انتظامی، مالی اور بلدیاتی امور کے بارے میں انڈر اسٹینڈنگ اور صلاحیت ہی اس پیچیدہ مسئلے کا اصل حل ہے۔

18ویں ترمیم کا مقصد مرکز سے صوبوں کی طرف اختیارات کی منتقلی تھا، اب ایک ایسی ترمیم آنی چاہئے جس سے مالی اور انتظامی اختیارات صوبوں سے اضلاع اور پھر اضلاع سے گراس روٹ لیول کی طرف جائیں۔

یہی وہ اقدامات ہیں جن کے ذریعے ہم عوام کو بااختیار کر سکتے ہیں اور ان کے مسائل مقامی سطح پر حل کر سکتے ہیں مگر جس طرح باقی معاملات میں الٹی گنگا بہہ رہی ہے ویسے ہی بلدیاتی اداروں کے ساتھ سلوک ہو رہا ہے، کہیں بھی انہیں چلنے نہیں دیا گیا، یونین کونسل کا ادارہ اپنی جڑیں قائم کر چکا تھا، اس کا پورا دفتری نظام قائم تھا اب اسے بیک جنبش قلم ختم کر دیا گیا ہے اور اس کی جگہ جو نظام آئے گا اس کا کچھ علم ہی نہیں۔

خیبر پختونخوا میں بھی ایسا ہی کیا گیا تھا مگر ابھی تک وہاں یونین کونسل کی جگہ بنائے گئے ادارے اپنے دفتر تک نہیں بنا سکے۔ براہِ کرم یونین کونسل، ڈپٹی کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر، ٹائون کمیٹی، میونسپل کمیٹی اور کارپوریشنز کے برسوں سے قائم شدہ عہدوں اور دفاتر کے ساتھ کھلواڑ نہ کیا جائے بلکہ ان کی پہچان باقی رکھی جائے البتہ ان عہدوں یا دفاتر میں اگر کہیں کارکردگی کی کمی ہے تو اسے ضرور بہتر بنایا جائے۔

نئے محکمے بنانے یا پرانے عہدوں کے نئے نام رکھنے سے کارکردگی بہتر نہیں ہوتی بلکہ لوگوں کیلئے پیچیدگیاں بڑھ جاتی ہیں۔ ایف آئی اے کی موجودگی میں نیب بنا کر معاملات سیدھے نہیں بلکہ پیچیدہ ہوئے ہیں۔ کاش ہم الٹی گنگا نہ بہائیں جو دنیا میں ہو رہا ہے اسی کو اپنا لیں تو ہمارے نوے فیصد مسائل حل ہو جائیں گے۔

نوٹ: پچھلے کالم میں شکیب جلالی کے حوالے سے ایک شعر لکھا تھا، محترمی عطاء الحق قاسمی، عقیل عباس جعفری اوراحباب نے میری غلطی کی نشاندہی کی اور بتایا کہ تمام شہر نے پہنے ہوئے ہیں دستانے والا شعر مصطفیٰ زیدی کا ہے۔ غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے احباب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے تصحیح کروا دی۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔