بلاگ
Time 12 مئی ، 2020

سیاست اور پارٹیاں

ہمارے سیاسی اور سماجی ڈھانچے میں خاندان پرستی شخصیت پرستی اور شاہ پرستی شامل ہے۔ ہمارے گھرانوں میں پیدا ہونے والے بچوں کو ہم شہزادے اور رانیاں کہتے ہیں۔

ہماری سماجی نفسیات یہ ہے کہ کچھ لوگ اورخاندان دوسروں سے ممتاز ہوتے ہیں ان کی کوئی خامی خامی نہیں ہوتی ہے وہ صرف حکمرانی کے لیے ہوتے ہیں۔

ایک دفعہ میں نے دیکھا ایک بڑے آدمی کے 10 سالہ بچے نے اپنے بوڑھے نوکر کو دیر سے پانی لانے پر تھپڑ مارے اور گالیاں دیں۔ جب میں نے اس کے بڑے بھائی سے استفسار کیا تو اس نے کہا، یہ تو ہوتا ہے، تم شہر والوں کو ہر بات بری لگتی ہے. جب یہ رویہ سیاست میں آتاہے تو طاقت کا کھیل اور ننگا ہو جاتا ہے۔

معاشرہ کسی بھی نوعیت کا ہو اُسے حکمرانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ دیہی علاقوں میں چھوٹی سطح پرحکمرانی گاؤں کے چوہدری، وڈیرے اور خان، جو ایک طرح سےغیر سرکاری حکمران ہوتے ہیں، وہ کرتے ہیں۔

شہری علاقوں میں ووٹ بکھرا ہوا ہوتا ہے، اس میں پارٹیوں کے علاوہ مافیا کا بھی ایک غیر مرئی کردار ہوتا ہے۔ پارٹیاں ان مافیا گروہوں کو اپنی حکمت عملی کے تحت استعمال کرتی ہیں۔ کسی نامور غنڈے یا کسی برادری اور فرقے کے رہنما سے ان کی خفیہ ملاقاتیں اسی سلسلے میں ہوتی ہیں۔ بس یہ خیال کیا جاتا ہے کہ پارٹی لیڈر ان سے نہ ملے، مگر یقین دہانیایان پارٹی لیڈر ہی کراتا ہے۔

ملک میں غیر جمہوری حکومت ہو تو مافیا اور غیر سرکاری حکمران کھل کر کھیلتے ہیں اور جمہوری حکومتوں میں بھی ان کی انگلیاں تو گھی میں ضرور ہوتی ہیں، سر اگر کڑاہی میں نہ بھی ہو تو فرق نہیں پڑتا۔

غیر سرکاری دیہی حکمران اگر زیادہ پڑھے لکھے نہ بھی ہوں تو بھی اس حقیقت سے آگاہ ہوتے ہیں کہ اصل سودے بازی سیاسی ہی ہوتی ہے، اسی لیے یہ کم ہی ہوتا ہے کہ سارا خاندان ایک ہی پارٹی میں ہو۔ یہ اپنے لوگ ہر پارٹی میں رکھتے ہیں اور جن کا مزاج سیاست کی طرف نہ ہو وہ بیورو کریسی اور فوج میں چلے جاتے ہیں۔

جمہوری دور میں الیکشن میں پارٹیوں کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ طاقت ور دیہی حکمران ان کی پارٹیوں میں شامل ہوں تا کہ اقتدار کے ایوان میں آسانی سے رسانی ہو، کیوں کہ کوئی بھی حکومت دیہی ووٹوں کی بنیاد پر بنتی ہے۔ شہری ووٹ کسی بھی پارٹی کے لیے بونس ووٹ ہوتا ہے اور کون نہیں چاہتا کہ اُسے بونس ملے۔

کسی بھی الیکشن میں کوئی یہ سوال نہیں کرتا کہ پاکستان میں راج کرنے والے خاندانوں کے بڑوں نے انگریزوں سے سودے بازی کر کے اپنے لیے خطاب اور جائیدادیں حاصل کی تھیں۔ انھوں نے یہاں کے لوگوں سے اپنے آپ کو وابستہ نہیں کیا تھا اور انھوں نے عوام کی کبھی پروا نہیں کی۔ آج انگریزوں کے ان دوستوں کی اولادیں ملک میں طاقت ور حیثیتوں میں ہی۔

پارٹیاں ان خاندانوں کے لیے راج کرنے کا ایک آلہ ہیں۔ اب خاندانی راج میں دوسرا شخص کیسے آسکتا ہے، لہذا یہ نظریہ گھڑا گیا کہ عوام صرف فلاں شخص کو ہی پارٹی لیڈر ماننے پر تیار ہیں۔ پارٹی لیڈر اپنے دو ڈھائی سو مقامی سطح پر طاقتور لوگوں کےذریعے یہ بیانیہ پھیلاتا ہے کہ لوگ صرف خاندان کو ہی ووٹ دیتے ہیں، دوسرا کوئی رہنما انہیں قبول نہیں ہے۔

اگر آپ ملک کا سیاسی منظر نامہ دیکھیں اور پی پی اور نواز شریف کی پارٹی کو الگ رکھتے ہوئے ذرا اے این پی،محمود اچکزئی، مولانا فضل الرحمان اور اختر مینگل کو دیکھ لیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ ان کے نعرے حقوق، انصاف اور اسلامی نظام کے لیے ہیں لیکن پارٹی قیادت صرف ایک خاندان تک محدود ہے۔ مجھے جماعت اسلامی کے فلسفے سے شدید اختلاف ہے لیکن یہ بات درست ہے کہ ان کے قائد کسی ایک خاندان کے نہیں اور سب مڈل کلاسیے رہے ہیں اور ہیں۔

خاندانی سیاست کے فروغ میں ایک اہم فیکٹر یہ ہے کہ کچھ قوتوں نے ملک میں انتخابات کا عمل مستقل نہیں رہنے دیا اور یہ کرنے کے لیے مختلف پارٹیوں کی قیادت کو سیاسی منظر سے ہٹایا جاتا رہا تا کہ اپنی پسند کا نظام قائم کیا جائے جس کی حمایت میں بڑی پارٹیوں نے سر نہیں جھکایا۔ جو لوگ جمہوری نظام کے بجائے اپنی پسند کا نظام چاہتے تھے، انہوں نے خاندانی سیاست کو جڑ پکڑنے میں مدد دی ہے کیوں کہ جب آپ کسی کو بھی ووٹ کے بغیرہٹائیں گے تو اس کے لیے لوگوں میں ہمدردی پیدا ہو گی۔ جمہوری قوتوں سے ایک غلطی بار بار ہوتی ہے کہ ان سے گورنس نہیں ہوتی اور عوام کے مسائل حل نہیں ہوتے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ غیر جمہوری حکومتیں مسائل حل کرتی ہیں۔ مسائل کو حل کرنے کی ذمہ داری بہر حال جمہوری حکومتوں کی ہوتی ہے اور جواب دہی انہی کی ہے کیوں کہ وہ لوگوں کے ووٹ لے کر آتے ہیں۔

خاندانی سیاست کا خاتمہ اُسی صورت میں ہو سکتا ہے جب انتخابات مستقل ہوں، جس سے مسائل پر کھلے عام بحث ہوتی ہے۔ لوگ غلط قیادت منتخب کر سکتے ہیں، انہیں یہ غلطی بار بار کرنے دیں۔ ایک وقت ایساآئے گا لوگ سب لیڈروں سے سوال کریں گے کہ ووٹ کیوں دیا جائے کیا کیا ہمارے لیے۔ لوگ ہی کسی نظا م کی تبدیلی کا آخری سہارا اور امید ہوتے ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔