لاک ڈاؤن، پاکستان کیلئے ہیرو یا ولن

26 فروری کو اس وائرس سے پہلی ہلاکت ہو ئی اور اب یہ تعداد 800 کے قریب پہنچ گئی ہے—فوٹو فائل

پاکستانیوں کو بڑے مخمصے کا سامنا ہے ، وہ کورونا وائرس سے جنگ میں لاک ڈائون کو اپنے لئے ہیرو ( نجات دہندہ ) سمجھیں یا ولن ( دشمن ) ۔26 فروری کو اس وائرس سے پہلی ہلاکت ہو ئی اور اب یہ تعداد 800 کے قریب پہنچ گئی ہے جس میں کوئی کمی نہیں بلکہ تعداد بڑھنے کا ہی خدشہ ہے ۔

یہ معاملہ تحقیقی سے زیادہ سیاسی بن گیا ہے ۔ حکومت نے عوام کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اس وائرس سے بچنے کا طریقہ کار اختیار کر یں، سماجی ( طبعی ) فاصلے اختیار کریں، ماسک لگائیں اور دستانے پہنیں ۔

اپنے روزمرہ معمولات میں طرز زندگی کو بدلیں۔ خاندانوں میں غیر یقینی پھیلی ہو ئی ہے ۔رمضان المبارک کے بعد ہزاروں شادیاں طے ہو تی ہیں۔حکومت نے شادی ہالز کھولنے اور ایس او پیز کا کوئی فیصلہ ہی نہیں کیا ہے جبکہ ماہ صیام اپنے آخری عشرے میں داخل ہو چکا۔ 

وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے ایس او پیز پر سختی سے عمل پیرا ہو نے کے انتباہ کے ساتھ نام نہاد لاک ڈائون میں نرمی کی ، چند روا قبل پورے ملک میں محدود کاروباری سرگرمیوں کی اجازت دی لیکن ملک میں بڑی مارکیٹوں اور کاروباری مراکز سے جو رپورٹس آرہی ہیں ، وہ ان لوگوں کے لئے مایوس کن ہیں۔

اسمارٹ لاک ڈائون کی بات کرتے ہیں لیکن لوگوں نے طےکردہ ایس او پیز کی کوئی پرواہ ہی نہیں کی جس کے نتیجے میں انتظامیہ نے بڑی مارکیٹوں کو بند کر دیا۔

ایس او پیز کو لاگو کر نا ، وفاقی حکومت کی تشکیل کردہ ٹائیگر فورس کے لئے بڑی آزائش ہے ۔ کیونکہ جلد ہی ٹرانسپورٹ پر پابندیاں نرم کر دی جائیں گی ، نجی ٹیکسی سروس کو کام کر نے کی اجازت دئے جا نے پر سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے ۔ جس کی تصدیق سندھ کے وزیر سعید غنی نے بھی کی ہے۔

ہوسکتا ہے حکومت ٹرینوں کی آمد و رفت اور بس سروس بھی بحال کر دے ۔بڑے شاپنگ مال بھی کھول دینے پر غور کیا جا رہا ہے کیونکہ وہاں ایس او پیز پر عمل درآمد کرانا نسبتاَ آسان ہو تا ہے۔

جن لوگوں نے روز اول سے مکمل لاک ڈائون کی مخالفت کی، ان کے خیال میں پورا ملک بند کرگئے جا نے کا متحمل نہیں ہو سکتا، صرف اشرافیہ کو ہی اس سے تحفظ مل سکتا ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔