15 مئی ، 2020
نیب نے وفاقی وزیر برائے ہوابازی غلام سرور خان کا پیچھا کرنا شروع کر دیا ہے۔ ایڈیشنل ڈائریکٹر (اسٹاف) برائے ڈی جی نیب محمد سلیم احمد خان نے حال ہی میں راولپنڈی انتظامیہ کو خط لکھ کر وفاقی وزیر اور ان کے اہل خانہ کی جائیداد کی تفصیلات طلب کر لی ہیں۔
خط کے مطابق نیب فی الوقت غلام سرور خان کی خلاف شکایت کی تصدیق کے مرحلے پر ہے۔ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر (ریونیو) راولپنڈی سے کہا گیا ہے کہ غلام سرور خان اور ان کے اہل خانہ کے نام پر زرعی، رہائشی اور کمرشل جائیداد، زمینوں اور پلاٹس کی خریداری، لین دین اور فروخت کی تفصیلات فراہم کی جائیں۔
’’خفیہ‘‘ خط میں وفاقی وزیر کے اہل خانہ کے پانچ ارکان کے نام اور ان کے شناختی کارڈ نمبرز بھی درج ہیں۔ راولپنڈی انتظامیہ سے کہا گیا ہے کہ وہ متعلقہ پٹواری کے ذریعے مطلوبہ معلومات جمع کرکے نیب راولپنڈی کے انوسٹی گیشن افسر کے پاس جمع کرائیں۔
یہ صورتحال عمران خان کیلئے پریشان کن ثابت ہو سکتی ہے ، حکومت کو نیب کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ بیورو پنجاب کے سینئر وزیر علیم خان کیخلاف بھی مواد جمع کر رہا ہے، وہ پہلے بھی نیب کی حراست میں رہ چکے ہیں اور حال ہی میں پنجاب کابینہ کا حصہ بنے ہیں۔
علیم خان نے جیل میں کچھ ماہ گزارے اور حال ہی میں لاہور ہائی کورٹ نے انہیں ضمانت پر رہا کیا ہے۔ اگرچہ وفاقی سطح پر پی ٹی آئی کے چند ہی رہنما اور وزیر نیب کی نظر میں ہیں، لیکن بیورو نے اب تک کسی کو بھی گرفتار کرنے کے معاملے میں تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔
اپوزیشن جماعتوں کی شکایت ہے کہ نیب سرکاری وزیروں اور حکمران جماعت کے رہنمائوں کو چھوڑ کر صرف اپوزیشن رہنمائوں کو ہدف بنا رہا ہے اور انہیں جعلی مقدمات میں پھنسا رہا ہے۔ اپوزیشن کا یہ بھی الزام ہے کہ حکومت اور نیب کے درمیان گٹھ جوڑ ہے۔
تاہم، حقیقت یہ ہے کہ نیب نے حکمران جماعت کے رہنمائوں اور وزراء کیخلاف مبینہ کرپشن کے کیسز شروع کر دیے ہیں۔ عموماً سیاست دانوں، بیوروکریسی اور میڈیا نے نیب کی ساکھ اور اس کے کام کرنے کے انداز پر سوالات اٹھائے ہیں لیکن بیورو کا دعویٰ ہے کہ وہ میرٹ پر اور قانون کے مطابق کام کر رہا ہے۔
نیب اس بات کی بھی نفی کرتا ہے کہ اسے سیاسی طور پر نشانہ بنانے کیلئے آلہ کار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ اعلیٰ عدلیہ نے متعدد مشاہدات میں اور فیصلوں میں بھی نیب کے کام کرنے کے انداز پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے اور ساتھ ہی ادارے کو سیاسی انجینئرنگ کیلئے استعمال کرنے کی بات بھی کی ہے۔
پی ٹی آئی حکومت میں بھی کئی لوگ ایسے ہیں جو نیب کے کام کرنے کے انداز پر تحفظات کا اظہار کرتے ہیں۔ خدشہ ہے کہ اگر نیب کے قانون میں ترمیم نہ کی گئی تو بیورو کو ایک نہ ایک دن عمران خان حکومت کیخلاف بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ حال ہی میں حکومت کی اتحادی شراکت داروں اور ق لیگ کے رہنمائوں نے گجرات کے چوہدریوں کیخلاف دہائیوں پرانے مقدمات کھولنے پر نیب پر تنقید کی۔
ق لیگ کی قیادت نہ صرف نیب کی جانب سے اختیارات کے مبینہ ناجائز استعمال پر لاہور ہائی کورٹ پہنچ گئی بلکہ وہ حکومت میں سینئر شراکت داروں یعنی پی ٹی آئی والوں سے سوال بھی کر رہے ہیں کہ آخر کون نیب کو ان کیخلاف استعمال کر رہا ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔