نیب:روشنی یا اندھیرا؟

فوٹو: فائل

کتنی بدقسمتی ہے کہ ہمارے معاشرے میں عظمت کے ساتھ زندہ رہنے والوں میں سے اکثریت کرپٹ لوگوں کی ہے جنہیں انجام تک پہنچانے کیلئے نیب کا ادارہ وجود میں لایا گیا تھا۔

یہ بھی طے ہے کہ بہترین چیزوں میں بدعنوانی بدترین چیزوں کو جنم دیتی ہے۔ جیسے نیب جیسے اچھے ادارے کا غلط استعمال انتہائی بدترین تنائج کا حامل ہو سکتا ہے۔

اس وقت نون لیگ نے بھی نیب کے خلاف ہر فورم پر اپنی آواز بلند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ چوہدری برادران یعنی قاف لیگ بھی نیب کے خلاف اعلانِ جنگ کر چکی ہے مگر انہوں نے الزام اسٹیبلشمنٹ پر نہیں حکومت پر لگایا ہے۔

انہوں نے نیب کو سیاسی انجینئرنگ کرنے والا ادارہ قرار دیا ہے یعنی ایک طرح سے کہا ہے کہ عمران خان نیب کی وساطت سے سیاسی معاملات طے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

کامل علی آغا تو یہاں تک چلے گئے ہیں ’’سمجھ نہیں آتا کہ نیب ہماری جان کیوں نہیں چھوڑتا۔ عمران خان کو ثابت کرنا ہوگا کہ وہ خود اس کے پیچھے نہیں‘‘۔ قاف لیگ کے وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ نے بھی کہا ہے کہ 20اور 34سال پرانے کیسز کھول کر نیب والے اپنا مذاق اڑا رہے ہیں۔ یہ سوچ کر حیران ہو رہا ہوں کہ کچھ لوگ کیسے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ جرم پرانا ہو جائے تو جرم نہیں رہتا۔

وہ یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ نواز شریف کے خلاف مقدمات تو اُن کے مقدمات سے بھی کہیں پرانے تھے۔بیشک نیب پاکستان کا وہ واحد ادارہ ہے جس نے بڑے بڑے لوگوں کو گرفتار کیا۔ کسی اور محکمے میں اتنی ہمت ہی نہیں کہ بڑے لوگوں کے سامنے کھڑا ہو سکے۔

جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ نیب والےجنہیں گرفتار کرتے ہیں، ایک دن اُن کی ضمانتیں ہو جاتی ہیں، نیب والے ان کے خلاف واضح ثبوت فراہم نہیں کر پاتے، یہ سچ نہیں۔

نیب والےجتنے ثبوت فراہم کرتے ہیں اتنے ثبوت اگر کسی غریب کے خلاف مہیا کر دیے جائیں تو ان کی ضمانت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوگا، بڑے اور امیر لوگوں کی اپنی دنیا ہے اور اپنے وسائل ہیں۔ قانون کیلئے انہیں اپنی گرفت میں زیادہ دیر رکھنا آسان نہیں ہوتا۔

نیب کے ایک سینئر اہلکار نے اپنا نام خفیہ رکھنے کی شرط پر بتایا ہے کہ اس وقت تک جتنے لوگ ضمانتوں پر ہیں ان میں سے نوے فیصد کے کیس اتنے مضبوط ہیں کہ ضمانت کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا تھا۔ بہرحال چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا ہے کہ ’’کرپشن کے مقدمات میں کوئی نرمی نہیں ہو سکتی‘‘۔

ورلڈ اکنامک فورم نے اپنی رپورٹ میں تسلیم کیا کہ نیب کی وجہ سے پاکستان میں کرپشن کم ہوئی ہے۔ بلاشبہ نیب سینکڑوں ارب روپے جمع کرکے حکومت کو دے چکا ہے۔ وہ ستر فیصد مقدمات میں کامیاب رہا ہے اور تیس فیصد کیسز میں ناکام۔

تسلیم کہ تیس فیصد بہت ہوتے ہیں مگر اس کے مقابلے میں ایف آئی اے کے کامیاب کیسز دس فیصد سے بھی کم ہیں، اینٹی کرپشن اور پولیس کی صورتحال اس سے بھی خراب ہے مگر مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس وقت حکومت کے کچھ افراد اور اپوزیشن مل کر نیب کو کمزور کرنے کی کوشش میں ہیں۔ موجودہ حکومت نے جو پہلے نیب آرڈیننس جاری کیا تھا اس سے کچھ مخصوص بیورو کریٹس کو فائدہ ہوا تھا، یا دیا گیا تھا۔

اب جو غیر تصدیق شدہ نیا ترمیمی آرڈیننس کا مسودہ تیار کیا گیا ہے اس میں کسی کو 90دن حراست میں رکھنے کا اختیار ختم کیا جائے گا۔ جب تک نیب ریفرنس دائر نہیں کرے گی عدالت سے وارنٹ جاری نہیں ہوں گے۔ رضاکارانہ طور پر بھی رقم واپس کرنے والا 5سال کیلئے نااہل ہو جائے گا۔ ایسی صورت میں کوئی پاگل ہی پلی بارگین کرے گا۔

5سال سے پرانے کھاتے نہیں کھولے جا سکیں گے یعنی پانچ سال کے بعد جرم‘ جرم نہیں رہے گا۔ اس طرح کے بیوقوفانہ آرڈنیس کے جاری ہونے کا ہر طرف چرچا ہے۔ شیخ رشید نے اس آرڈیننس کے مسودے کو جعلی قرار دیا ہے۔ وہ اسٹیبلشمنٹ کے بھی بہت قریب ہیں۔

پتا نہیں یہ وضاحت انہوں نے حکومت کی طرف سے کی ہے یا اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے۔ ابھی تک حکومت کی طرف سے واضح طور پر اس سلسلے میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ میرا خیال ہے عمران خان کو اس معاملے میں خود داخل اندازی کرنا چاہئے کیونکہ عمران خان کی تمام تر سیاست کرپشن کے خلاف ہے۔

نیب کے حوالے ایک بحث یہ بھی ہے کہ کیا نیب میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ ان مقدمات کی بہتر انداز میں تفتیش کر پائے یا وہاں capacity buildingکا مسئلہ ہے۔

نیب کو اپنی صلاحیت کی تعمیر و ترقی پر زیادہ اخراجات کرنا چاہئیں۔ اپنے لوگوں کو جدید سے جدید تر اندازِ تفتیش کیلئے غیر ممالک سے ٹریننگ دلائیں مگر اس وقت تک ستر فیصد کیسز میں کامیابیاں حاصل کرنے والے ادارے کے بارے میں یہ کہنا ہے کہ اس میں capacityنہیں، بالکل غلط ہے۔

میرے خیال میں اینٹی کرپشن کا محکمہ ختم کرکے اسے نیب میں ضم کر دیا جائے تاکہ نیب کے وسائل بڑھ جائیں ۔ ایف آئی اے کو بھی نئے سرے سے کھڑا کرنے کی ضرورت ہے۔ کیسز میں اُس کا مایوس کن رزلٹ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ یہ ادارہ بھی اس ملک پر ایک بوجھ کے سوا کچھ نہیں۔

بہرحال ہم جانتے ہیں کہ اشرافیہ کے بڑے بڑے لوگ، بڑے بڑے کاروباری افراد، بدعنوانی کا سرچشمہ ہیں، نیب کے سوا کوئی ان کے تعاقب میں نہیں۔ صرف انہیں پکڑا جاتا ہے جنہیں پکڑے کی نہیں، پیٹ بھر کے روٹی دینے کی ضرورت ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔