16 مئی ، 2020
اُس نے تو چپ کا روزہ رکھا ہوا تھا، اب روزہ توڑ کیوں ڈالا؟ اسے دوسری بار پنجاب کا بڑا عہدہ ملا تو جہاندیدہ بیٹوں اور اہلِ خاندان نے بند کواڑوں کے پیچھے باپ کو قائل کیا کہ آپ اگر چپ رہیں تو آپ کے راستے میں کم سیاسی مشکلات آئیں گی۔ اُس نے دلیلیں دیں، بحث کی اور بتایا کہ دنیا بھر میں بات کرنے سے راستے کھلتے ہیں، خاموشی تو انسان کو اندر ہی اندر مار دیتی ہے مگر بیٹوں کے پاس بھی دلائل کے انبار تھے۔
اُنہوں نے کہا کہ آپ کے سخت بیانات ہی کی وجہ سے پچھلی دفعہ آپ اور شریف خاندان کے درمیان فاصلے بڑھے۔ آپ کے بیانات ہی کی وجہ سے آپ کے مخالفوں کو موقع مل جاتا ہے۔ بحث و تمحیص کے بعد اہلِ خاندان میں یہ شریفانہ معاہدہ ہو گیا کہ اب وہ چپ کا روزہ رکھ لے گا۔
اس نے 19ماہ تک اس عہد کی پاسداری کی مگر حالات نے اسے مجبور کیا، پرانی عادتیں جاتی بھی کب ہیں؟ بس پھر اس نےکفن پھاڑ کر بیوروکریسی کو سنا ڈالیں، ہر ایک کے کان کھڑے ہو گئے کہ اصل کہانی کیا ہے؟
گورنر چوہدری سرور بنیادی طور پر بےچین شخص ہیں، وہ نچلے نہیں بیٹھ سکتے، کچھ نہ کچھ کرنے کی فکر میں لگے رہتے ہیں، وہ سوچتے تھے کہ تحریک انصاف حکومت کے پہلے سال کے اندر وہ پنجاب میں 2کروڑ لوگوں کو صاف پانی فراہم کر لیں گے، مگر آب پاک منظور ہونے کے باوجود فائل نوکر شاہی کے دفاتر میں گھومتی رہی، اس بار گورنر خوش تھے کہ انہیں وزیراعظم کی مکمل اشیرباد حاصل ہے اور وزیراعلیٰ بزدار کوئی رکاوٹ نہیں ڈال رہے۔
18ماہ گزرے، جنرل (ر) میلہ کام شروع ہی کرنے والے تھے کہ پتا چلا فنڈز روک لئے گئے ہیں۔ بس اس پر گورنر کا پارہ چڑھ گیا، وہی پرانی عادت عود کر آئی، بیوروکریسی کو کھری کھری سنا دیں اوردلچسپ بات یہ کہ ان کے اس بیان کو سوشل میڈیا پر 97فیصد لوگوں نے پسند بھی کر ڈالا۔
گورنر کا روایتی تصور اونچی دیواروں سے گھرے نو آبادیاتی محل میں شان و شوکت سے رہنا اور پروٹوکول سے لطف اندوز ہوتے ہوئے باہر نکلنا ہے۔ گورنر کو وسیع اور ایکڑوں میں پھیلے سرسبز لان میں سیر کی سہولت حاصل ہے، بہترین سوئمنگ پول موجود ہے جس میں پیراکی سے لطف اندوز ہوا جا سکتا ہے، کشتی رانی کی خواہش ہو تو شاید اس کا انتظام بھی ہو سکتا ہے۔
گورنر کو چاہیے کہ صبح اوپری منزل کی بالکونی میں بیٹھ کر ناشتہ کرے، سبزے اور پھولوں کے نظارے سے محظوظ ہو، دوپہر کا کھانا عبدالرحمٰن چغتائی کی پینٹگز سے آراستہ گرین روم میں کرے، رات کا کھانا موم بتیوں کے رومانوی ماحول میں کناپی لگا کر کرے مگر چوہدری سرور عجیب ہے، کبھی رکشا ڈرائیوروں کو بلاتا ہے اور کبھی غریب مزدوروں کو۔ ابھی تک 300کروڑ کا امدادی سامان تقسیم کر چکا ہے۔
آپ عجیب ہوں، مختلف ہوں، اوپر سے ہر وقت متحرک رہیں تو حسد تو پیدا ہوگا، سازشیں تو ہوں گی، گورنر سرور کے ساتھ بھی یہی ہوتا آیا ہے۔
پچھلے سال ہر روز گورنر ہائوس میں افطاری کرانا شروع کی تو الزام لگا کہ سرکاری پیسہ ضائع کر رہا ہے۔ گورنر نے وضاحت کی کہ یہ افطاریاں سرکاری خزانے سے نہیں ہو رہیں تو مقدمہ یہ بنایا گیا کہ گورنر اپنی لابی بنا رہا ہے۔
چوہدری سرور امریکا اور برطانیہ سے فنڈز اکٹھے کرکے لائے تو وزیراعظم کو شکایت لگائی گئی کہ گورنر کے عہدے کا استعمال کرکے سرور فائونڈیشن عطیات جمع کر رہی ہے۔
گورنر سرور فائونڈیشن کے عہدے سے الگ ہو گئے مگر تحقیقاتی ایجنسیوں نے باقاعدہ ایک ایک عطیے کی تفتیش کی، لوگوں کو بیرونِ ملک فون کئے اور سرور فائونڈیشن کے اکائونٹس کی باقاعدہ چیکنگ کی گئی۔ پھر یہ الزام لگایا گیا کہ گورنر ہائوس میں کچھ مشکوک لوگوں کا آنا جانا ہے، ایک بار تو حد ہی ہو گئی، گورنر کی برطانیہ سے آئی ہوئی ساتھی کارکن کے بارے میں کہا گیا کہ اسے گورنر ہائوس نہ بیٹھنے دیا جائے اور تو اور یہ بھی رپورٹ بھیجی گئی کہ گورنر دراصل فیصل آباد میں پراپرٹی کا کام کرتا ہے۔
گورنر اس سارے مخاصمانہ ماحول کے باوجود اپنے کام میں مصروف رہے، نواز شریف کے دور میں وہ ذرا ذرا سی بات پر بھڑک اٹھتے تھے لیکن اس بار منہ کو تالا لگائے رکھا۔ شہباز شریف سے پانی کے معاملہ پر اختلاف ہوا تو سرعام ساری کہانی کہہ ڈالی لیکن اس بار خاموشی سادھے رکھی مگر اب کے انہیں بولنا ہی پڑا۔
لگتا یوں ہے کہ اس بار ان کے بولنے سےمسئلے حل ہو جائیں گے جبکہ ماضی میں ان کے بولنے سے مسئلے خراب ہو جاتے تھے، اس بار انہوں نے صبر سے کام لیا اور تیاری سے میدان میں آئے ہیں۔ دیکھیں اس بار میدان میں آخر کون کام آتا ہے اور کون کھیت رہتا ہے؟
آج کل کی سیاست میں شور ہو یا خاموشی، چپ کا روزہ رکھا جائے یا توڑ دیا جائے اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی کہانی، کوئی نہ کوئی مصلحت ہوتی ہے۔ بہترین انتظامی افسر اعظم سلیمان پنجاب کے معاملات کو کافی حد تک سیدھا کر چکے تھے، انتظامیہ نے کام کرنا شروع کردیا تھا مگر وزیراعظم کو ثبوت پیش کیا گیا کہ چیف سیکرٹری نے شہباز شریف سے ٹیلی فون پر بات کی ہے اور یوں سارا حسنِ انتظام ایک طرف رہ گیا اور اعظم سلیمان کو شک کی بنیاد پر یکلخت رخصت کردیا گیا۔
دوسری کہانی بھی ایسی ہی ہے، ایک طاقتور ادارے کے عملیت پسند اور خیر خواہ سربراہ نے وزیراعظم کو مشورہ دیا کہ ترین کے خلاف چینی اسکینڈل کو حد سے زیادہ بڑھایا گیا تو سیاست میں نقصان ہوگا، اسی طرح کا پیغام جہانگیر ترین کو بھی دیا گیا۔ یوں دونوں طرف اس مشورے کے فیض سے وقتی طور پر خاموشی چھا گئی ہے مگر اس معاملے کی سنگینی کے پیش نظر اسے زیادہ دیر تک قالین کے نیچے چھپانا مشکل ہوگا، ہر سیاسی معاملے کے کچھ نہ کچھ نتائج و عواقب ضرور ہوتے ہیں۔
وزیراعظم نے چینی اسکینڈل میں اپنے ہی سیاسی ساتھی جہانگیر ترین کے خلاف تحقیقات کیں تو انہیں اس کا فوری سیاسی فائدہ ہوا، سیاسی گراف اوپر گیا، اب اگر اس اسکینڈل پر مٹی ڈال دی جاتی ہے تو پھر وزیراعظم کے لئے آنے والے دنوں میں یہ ایک سیاسی مسئلہ بن جائے گا اور ہر جگہ سوال ہوگا کہ اپنوں کی باری آئی تو مصلحت آڑے آگئی جبکہ سیاسی مخالفوں کو رگڑا لگاتے ہوئے کسی مصلحت کو خاطر میں نہیں لایا جاتا۔
ملک کا سیاسی منظر نامہ دیکھیں تو ہر طرف چپ کا روزہ ہے۔ مریم نواز چپ ہے اور اپوزیشن غیر متحرک، ایسے لگتا ہے کہ حکومت کیلئے بالکل فری ہینڈ ہے لیکن یہ سب ظاہری ہے، اصل حقیقت یہ ہے کہ ملک اقتصادی بحران کا شکار ہے، کورونا نے ترقیاتی بجٹ ختم کردیا ہے، جون کے بعد سے کوئی معجزہ رونما نہ ہوا تو حالات دگرگوں ہو سکتے ہیں۔ پھر کیا ہوگا، کسی کو بھی علم نہیں۔۔۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔