’کرکٹ ضروری ہے، چاہے بند دروازوں میں ہو یا نئے قوانین بنانا پڑیں‘

لوگوں کو پریشانی سے بچانے اور انہیں ذہنی طور پر مضبوط کرنے کے لیے کھیلوں کی سرگرمیاں فوری طور پر شروع کرنی چاہییں: سابق ٹیسٹ کرکٹر مشتاق احمد. فوٹو: فائل

کووڈ 19 کے دور میں اب جہاں ہر طرف لاک ڈاون میں نرمی ہو رہی ہے اور احتیاطی تدابیر کے ساتھ کھیلوں کی معطل سرگرمیوں کو شروع کرنے کے لیے اقدامات ہو رہے ہیں اور خوش آئند بات یہ ہے کہ کہیں کہیں یہ سرگرمیاں شروع بھی ہو رہی ہیں۔

سابق ٹیسٹ کرکٹرز یہ آواز اٹھا رہے ہیں کہ کھیلوں کی سرگرمیاں شروع ہونی چاہییں، ان میں سابق لیگ اسپنر مشتاق احمد بھی شامل ہیں۔

مشتاق احمد کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس نے عالمی وبا بن کر پوری دنیا کو متاثر کیا ہے، ہمیں اللہ سے بڑی امید ہے کہ اس وبا سے ہمیں چھٹکارا ملے گا لیکن دنیا اس وقت جس صورتحال سے گزر رہی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ لوگوں کو پریشانی سے بچانے اور انہیں ذہنی طور پر مضبوط کرنے کے لیے کھیلوں کی سرگرمیاں فوری طور پر شروع کرنی چاہییں۔

سابق لیگ اسپنر نے کہا کہ کھیلوں کی سرگرمیاں دوبارہ شروع کرنے کے لیے اس کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ہوں گی، اس کے لیے نئے قوانین بنیں، روایات میں تبدیلی کرنا پڑتی ہے تو وہ بھی کریں، گیند کو تھوک سے چمکانے اور جشن منانے کی ممانعت ہوتی ہے تو کوئی حرج نہیں کیونکہ یہ تو ایسی چیزیں ہیں کہ جب حالات نارمل ہوں اور کورونا ختم ہو جائے تو دوبارہ پرانے قوانین اور پرانی روایات کو واپس لایا جا سکتا ہے۔

‏مشتاق احمد نے کہا کہ بند دروازوں میں بھی کرکٹ کرانے میں کوئی حرج نہیں ہے، بس کرکٹ ہونی چایئے، لوگ گھروں میں ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر لطف اندوز ہو سکتے ہیں، لوگوں کو تفریح کی ضرورت ہے، انہیں ریلیکس ہونا ہے، انہیں ذہنی سکون درکار ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ لوگوں کا ہی نہیں بورڈز کا بھی نقصان ہو رہا ہے، اور یہ نقصان کب تک برداشت کیا جائے گا، ہم سب کو اس وقت مضبوط ہونے کی ضرورت ہے اور اس وبا کا مقابلہ کرنا ہے۔

مشتاق احمد نے کہا کہ مجھے خوشی ہے کہ انگلینڈ میں فٹ بال اور کرکٹ کی سرگرمیاں شروع ہو رہی ہیں جو کہ بڑی مثبت چیز ہے، اس سے لوگوں کو دماغی اطمینان ملے گا اور وہ سوچیں گے کہ زندگی اب نارمل ہو رہی ہے اور یہ سوچ انہیں کورونا وائرس کے خوف سے دور لے جائے گی۔

‏90 کی دہائی میں میچ فکسنگ کی بحث کے حوالے سے 90 ہی کی دہائی کے کرکٹر مشتا ق احمد کا کہنا ہے کہ ماضی کی چیزوں کو بھول کر آگے بڑھنا چاہیے، ان کو کریدنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے، ماضی کی باتیں کرنے سے دوسروں کو پاکستان پر ہنسنے کا موقع ملتا ہے۔

مزید خبریں :