Time 21 مئی ، 2020
بلاگ

اب بھی مہلت باقی!

فوٹو فائل—

جس دن شوہر نے خودکشی کی، ہم 5دن سے بھوکے تھے، بچوں نے پانی سے روزہ کھولا تو نذیر نے زہر کی گولیاں کھا لیں، یہ الفاظ آمنہ بی بی کے، ضلع مظفر گڑھ کی تحصیل کوٹ ادو کی آمنہ بی بی، نذیر کی بیوہ، وہ نذیر بچوں کو پانی سے روزہ کھولتا دیکھ کر جس کی ہمت جواب دے گئی۔

نذیر کوٹ ادو کی مقامی لیب میں جبکہ آمنہ مختلف گھروں میں کام کر رہے تھے، کورونا آیا، دونوں کے کام چھوٹ گئے، لاک ڈاؤن، بیروزگاری، فاقے، گھر کی صورتحال یہ ہوئی، کبھی پانی سے روزہ رکھنا تو کبھی پانی سے روزہ کھولنا پڑتا، لیکن جب بچوں نے مسلسل پانچویں دن پانی سے روزہ افطار کیا تو نذیر ہار گیا، باپ ہار گیا۔

اس نے خودکشی کر لی، رمضان، اسلامی جمہوریہ پاکستان، 22کروڑ مسلمان، نذیر کے گھر 5دن سے فاقے، 5دن پانی سے روزہ رکھنا، کھولنا، کہاں گئے محلے دار، رشتے دار، پڑوسی، یہ کیسا معاشرہ، یہ کیسا نظام، یہ کیسا ملک، یہ کیسے مسلمان، ایک گھر میں 5دن سے فاقے، بات خودکشی تک جا پہنچی، کسی کو خبر نہ ہوئی۔

یہاں مجھے راولپنڈی کے نعمت اللہ کا بیٹا واحد اللہ یاد آ رہا، جس کے باپ نعمت اللہ کو غربت بے روزگاری نے نیم پاگل کر دیا، جس نے ایک دن اپنی بیگم عاصمین بی بی کو قتل کرکے خودکشی کر لی، ماں، باپ کی میتوں کے سرہانے کھڑا نعمت اللہ کا بیٹا واحد اللہ کہہ رہا تھا ’’یہ کیسی دنیا، جب ماں، باپ زندہ تھے، ہم نے مدد کیلئے ہر دروازہ کھٹکھٹایا، کسی نے مدد نہ کی، اب ماں، باپ نہیں رہے، ہر کوئی کہہ رہا کچھ چاہیے تو نہیں، یہ کیسی دنیا، ماں، باپ کی میتیں گھر پر پڑی ہیں اور ہمارے پاس کفن، قبروں کے پیسے نہیں‘‘۔

یہاں مجھے راولپنڈی کے علاقے سرجانی ٹاؤن کا وہ بے روزگار باپ یاد آ رہا، جس کے بچوں نے جب تیسری بار اسے کہا کہ بابا ہمیں بھوک لگی ہوئی ہے، روٹی لا دو تو بابا روٹی لینے کے بہانے باہر گیا اور خود کشی کرلی، وہ باغبانپورہ کی 5بچوں کی ماں شمشاد بی بی، جس کا خاوند عبدالحمید کئی سالوں سے بیمار، جو مختلف گھروں میں کام کر کے بچوں کا پیٹ پال رہی تھی۔

ایک دن جب مالک مکان نے کرایہ مانگتے ہوئے یہ کہہ دیا ’’اگر کل تک کرایہ نہ دیا تو مکان خالی کر دیں‘‘ تو اسی شام شمشاد بیگم گلے میں پھندا ڈال کر پنکھے سے جھول گئی، یہیں مجھے لاہور کی بشریٰ بیگم یاد آگئی، جس نے غربت، بے روزگاری سے تنگ آکر دو بچوں سمیت چلتی ٹرین کے سامنے کود کر جان دیدی۔

آپ کو یہ سن کر حیرت ہوگی کہ غربت، بے روزگاری کی وجہ سے نہ صرف گزرے 3سالوں میں 3ہزار بھکے ننگوں نے خود کشی کی، بلکہ ملتان، گوجرانوالہ، لاہور میں بیسیوں غربت کے ماروں نے غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنی اولاد تک بیچ دی۔

اکثر سوچوں، یہ سب کچھ کہاں ہو رہا، اسلامی ملک میں، مسلمانوں کے ملک میں، حیرت، حیرت، یہ کیسا اسلامی جمہوریہ، ہم کیسے مسلمان، ایک طرف 5فیصد کے کتے، بلے ولایتی خوراکیں کھا رہے، ایئر کنڈیشنڈ ماحول میں رہ رہے جبکہ دوسری طرف بھکے ننگے انسان، بھک ننگ کے ہاتھوں مجبور خودکشیاں کر رہے۔

اکثر سوچوں، یہ کیسا بے حس، بے رحم، ظالم معاشرہ، کوئی غریب مرے، کوئی بھکا ننگا خودکشی کرے، ایک آدھ دن کی ہلکی پھلکی ہلچل، پھر سب کچھ نارمل، جب بھی کوئی نذیر مرے، ایک آدھ دن، رسمی کارروائیاں، حکومتی، عوامی ٹسوے، ڈرامے اور پھر لمبی چپ، آج تک کسی نذیر کے مرنے پر اس معاشرے، قوم، حکومت نے یہ نہ کیا کہ اگلا نذیر نہ مرے، کبھی کچھ ایسا نہ کیا کہ کسی نذیر کے بچے بھوکے نہ رہیں، کسی کو پانی سے روزہ رکھنا نہ کھولنا پڑے۔

حضرت علیؓ کا فرمان ’’معاشرہ کفر کے ساتھ رہ سکتا ہے، ظلم کے ساتھ نہیں‘‘ یہاں تو قدم قدم پہ ظلم، اکثر سوچوں، ہمارے حکمرانوں کو کیوں خوفِ خدا نہ رہا، کیوں یہ بھلا بیٹھے کہ انہیں ایک دن مرنا، ایک دن اس عدالت میں پیش ہونا جہاں رائی برابر نیکی، ذرہ برابر برائی کا بھی حساب ہوگا، جہا ں کوئی جھوٹ، فراڈ، مکاری، جعلسازی نہیں چلے گی۔

جہاں کوئی سفارش، پرچی، رشتہ، واسطہ، جگاڑ، پیسہ نہیں چلے گا، اکثر سوچوں، وہاں یہ سب کیا کریں گے، اپنی صفائی میں کیا کہیں گے، اکثر سوچوں، جہاں جھوٹ، چالاکی نہیں چلے گی، وہاں جھوٹے، چالاک کیا کریں گے۔

اکثرسوچوں، نذیر کے بچوں کی روٹی کون کھا گیا، نعمت اللہ کے حصے کا رزق کس پیٹ میں چلا گیا، شمشاد بی بی کا حصہ کون ہڑپ کر گیا، بشریٰ بیگم کے بچوں کی بھوک کا ذمہ دار کون، 3سالوں میں 3ہزار خود کشیوں کا سبب کون، ماں باپ اپنی اولاد بیچنے پر مجبور کیوں، اس سب کچھ کا، یہ معاشرہ، یہ قوم، یہ حکمران، یا ہم سب ہی ذمہ دار، اکثر سوچوں، اگر روزِ محشر ہم سے یہ سوال ہوگیا کہ تمہارے پیٹ، اکاؤنٹ لبالب بھرے ہوئے تھے اور تمہارے اردگرد نذیر بھوکے مر رہے تھے، خودکشیاں کر رہے تھے، کیوں۔

اگر ہم سے یہ پوچھ لیا گیا کہ تمہارے فریج چیزوں سے بھرے ہوئے تھے، تمہارے دستر خوان سجے ہوئے تھے اور تمہارے پہلو میں نذیر کے بچے پانی سے روزے رکھ، کھول رہے تھے، کیوں، مجھے نہیں لگتا ہمارے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب ہے لیکن ہاں ہمارے پاس یہ مہلت باقی کہ اپنی غلطیوں کا مداوا کر سکیں، ان سوالوں سے بچ سکیں۔

اللہ کو راضی کر سکیں، وہ کیسے، وہ ایسے، آج سے ہم یہ تہیہ کر لیں کہ اپنے اردگرد نظر رکھنی، کسی نذیر کے بچوں کو بھوکے نہیں رہنے دینا، کسی نذیر کو مرنے نہیں دینا، کسی نعمت اللہ، شمشاد بی بی، بشریٰ بیگم کو خود کشی نہیں کرنے دینی، دوستو! عید سر پر، اردگرد نظر دوڑائیں۔

کوئی نذیر جس کے بچوں کو عیدی، نئے کپڑوں کی ضرورت، کوئی شمشاد بی بی جس کے گھر کا کرایہ دینے والا ہو، کوئی بشریٰ بیگم، نعمت اللہ جنہیں راشن کی ضرورت ہو، آئیے! اپنے گناہوں کا مداوا کرلیں، آئیے! اللہ کو راضی کر لیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔