23 مئی ، 2020
لاہور اک تاریخ اور دیومالائی سی حیثیت کا حامل شہر ہے، یہ حضرت علی ہجویری ؒ، میاں میرؒ اور موسیٰ آہن گر کا شہر ہے، اس نے راجہ جے پال کو خودسوزی کرتے دیکھا، یہاں محمود وایاز والا ایاز دفن ہے۔
ایک طرف جلال الدین محمد اکبر کا عجب مزاج جانشین نورالدین جہانگیر تو دوسری طرف ملکہ ہند نورجہاں محوخواب ہے جو اس شہر کو جان برابر سمجھتی تھی،کوئی نہیں جانتا کہ یہ شہر کتنی بار اجڑا، کتنی بار آباد ہوا کہ کتنی بار جلایا گیا کتنی بار سجایا گیا، اللہ اسے سدا سلامت رکھے۔
یہ شہر زندہ حقیقت بھی ہے اور افسانوں کا افسانہ بھی، اس شہر بے مثال نے بےشمار فاتح اور مفتوح دیکھے، یہ چوبرجی اور سو برجیوں کے جلال و جمالی کا حسین امتزاج ہے، اس نے سر پھرے سکھوں سے لیکر سیانے فرنگی بھی دیکھے، اس کے قلعے کے نیچے نجانے کتنے قلعے دفن ہیں۔
اس شہر کا ہر دروازہ داستان ہے اور ہر گلی طلسم ہوشربا، یہاں وہ فیروزپور روڈ بھی ہے جسے لیفٹیننٹ ہڈسن نے ریکارڈ ٹائم میں مکمل کیا اور یہ وہی ہڈسن ہے جس نے بعدازاں میجر ہڈسن کے طور پر آخری مغل بہادر شاہ ظفر کو ہمایوں کے مقبرہ سے گرفتار کیا تھا۔
یہ محکم دین اور مائی موراں کا شہر ہے، لاہور میں ایسے لاتعداد ہیرے جواہرات دفن ہیں جن کا سوچ کر ہی شاید کسی نے کہا تھا ۔زیر زمیں بھی روشنی ہومٹی میں چراغ رکھ دیا ہےآج تک کوئی نہیں جان سکا کہ اس شہر کا وہ کون سا اولین مقام تھا جسے لاہور کہہ کر پکارا گیا۔
1959ءمیں آثار قدیمہ والوں نے قلعہ لاہور کے اندرون ایک جگہ پر ’’آثار قدیمہ کی تہہ درتہہ تفصیلی جانچ‘‘ کا کام سرانجام دیا تھا، 52فٹ گہرائی سے نمونہ حاصل کیا گیا اور ہر فٹ کا ’’کاربنی تعین زمان‘‘نے تین خصوصی تہیں دریافت کیں جو حتمی رہائش کا بعینہ ثبوت تھیں۔
ہر تہہ اوپر والی تہہ سے تقریباً 700سے لیکر 800برس پرانی تھی، سب سے نچلی تہہ جو تقریباً 45فٹ گہرائی پرتھی میں ملنے والی نفیس اینٹ پہلے زمانے کے رہائش پذیر لوگوں نے مٹی کو ٹھوس شکل دے کر تیار کی تھی۔
ایک محتاط تخمینے کے مطابق یہ آبادی تین ہزار سال پرانی تھی، ماہرین نے تب تجویز کیا تھا کہ دیگر جگہوں سے اس سے بھی زیادہ گہرائی سے نمونے حاصل کرنے کی ضرورت ہے خصوصاً ان ٹیلوں سے جو اس ٹیلے سے بھی اونچے تھے جس پر لاہور کا قلعہ تعمیر کیا گیا تھا۔
ایک مقبول نظریہ یہ بھی ہے کہ پہلی آبادی جسے ہم لاہور کہتے ہیں اس جگہ، مقام سے شروع ہوئی تھی جہاں قلعہ کھڑا ہے ۔قلعہ کے اندر ’’لاہور‘‘ کے مندر کی موجودگی اور یہ حقیقت کہ وہ رام اور سیتا کا بیٹا تھا۔سے اس نظریہ کو تقویت ملتی ہے لیکن اس کی تصدیق اسلامی دور سے قبل کی کسی بھی تحریر سے نہیں ہوتی لیکن اس کا اظہار مشہور ہندو مورخ سجن رائے بھنڈاری نے 1695-96 میں اپنے مشہور مقالے ’’خلاصتہ التواریخ‘‘ میں کیا ہے۔
ایک اور ’’آثار قدیمہ کی تہہ داری تحقیق‘‘ راجہ دھیان سنگھ کی حویلی میں کی گئی۔وجہ یہ تھی کہ یہ مقام لاہور کے ٹیلے سے ذرا زیادہ بلندی پر ہے۔اس کاربنی تعین زمان تحقیق نے واضح طور پر لاہور کی کہنہ سالی کو ثابت کیا۔اس میں بھی انسانی آبادی کی چار سطحیں پائی گئیں لیکن افسوس صد افسوس اس تحقیق کو آگے بڑھانے کی بجائے وہیں نامکمل چھوڑ دیا گیا کہ بدقسمتی سے یہی ہم لوگوں کا اجتماعی مزاج ہے اور کردار بھی کہ ہم بدصورتی کو تو انتہائوں کی انتہا تک پہنچا دیتے ہیں لیکن خوبصورتی کے ساتھ ہمارا گزارہ نہیں ہوتا۔
قارئین !میں موضوع کو چھوکر بھی نہیں گزرا جس کیلئے معذرت خواہ حالانکہ میرا بھی کوئی قصور نہیں کہ ایک کیا، ایک لاکھ ایک کالم بھی اس شہر بے مثال و لازوال کی ایک گلی، ایک کوچے کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتے۔
میں 67ءمیں جب لائل پور سے ’’بتیاں‘‘ دیکھنے اور پڑھنے آیا تو اس شہر کے سحر نے ایسے جکڑا کہ واپسی کا رستہ بھول گیا۔کئی بار بیرون ملک شفٹ ہونے کے کئی منصوبے بنائے لیکن لاہور کی جدائی کے خیال سے سب دھرے کے دھرے رہ گئے سو میں بھی اس شہر میں ہی دھرے کا دھرا رہ گیا۔
نیوکیمپس والی نہر اس شہر کی مانگ بھی ہے اور اس مانگ کا سیندور بھی۔اک وقت تھا جب ہم نیوکیمپس کے پل پر کھڑے ہو کر اس نہر کے پاکیزہ پانی میں اپنے چہرے دیکھ لیتے تھےلیکن پھر بتدریج اندر کی غلاظت نے سب کچھ میلا اور گدلا کر دیا۔
پوش نئی آبادیوں نے اصل لاہور کو گہنا دیا، بھلا دیا حالانکہ یہ آبادیاں لاہور نہیں لاہور کے بڑھے ہوئے ناتراشیدہ ناخن ہیں۔آج یہ نوحہ لکھنے کی نوبت یوں آئی کہ اس خبر نے بری طرح اداس کر دیا جس کی چند سرخیاں پیش کرکے رخصت کی اجازت چاہوں گا ....پڑھتا جا شرماتا جا۔
’’کنارے ٹوٹ گئے، گرین بیلٹس اجڑ گئیں۔بھینسیں نہلانے سے نہر کا حسن تباہ‘‘ہربنس پورہ اور ملحقہ علاقوں کے گوالوں نے بھینسوں کو نہر میں نہلانے کیلئے کنارے توڑ کر ڈھلوانیں بنالیں۔گرین بیلٹس کی گھاس برباد، پودے مویشی کھا گئے ‘‘مویشیوں کی وجہ سے سڑک کی کارپیٹنگ مکمل ہونے سے پہلے ہی اجڑ گئی۔
ایل ڈی اے، محکمہ آبپاشی ،کینال کمشنر اور پی ایچ اے بھی ذمہ داری لینے سے گریزاں‘‘محاورہ ہے مجرموں کے منہ کالے کرکے گدھے پر پھرانا، اس کیس میں ان SUBMEN اور MANIMALSکے منہ کالے کرکے بھینسوں پر پھرانا چاہئے جو اس دیومالائی شہر کے درپے ہیں لیکن یہ کرے گا کون ؟ہم بھی کیا لوگ ہیں جنہیں کسی دشمن کی ضرورت نہیں، اپنے لئے خود ہی کافی ہیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔