شہباز شریف سے متعلق چند حقائق

سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف—فوٹو فائل

سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف فروری 2003ء میں علاج کیلئے نیویارک پہنچے تو ہمیشہ کی طرح پاکستان و کشمیری کیمونٹی میں متحرک کیپٹن ریٹائرڈ شاہین بٹ ان کے میزبان تھے۔

جنہوں نے چند روز بعد میاں صاحب کو ہڈسن دریا کے پار نیو جرسی میں ایک اپارٹمنٹ میں شفٹ کردیا تاکہ دورانِ علاج ان کی پرائیویسی متاثر نہ ہو۔ چند روز بعد نیو یارک سٹی کے مشہور کینسر اسپتال میں ان کا کامیاب آپریشن ہوا جس کے بعد کافی عرصہ تک وہ امریکا میں مقیم رہے۔

روبہ صحت ہونے کے بعد ان کی اکثر شامیں مین ہٹن میں واقع ایک ریسٹورنٹ میں گزرتیں جہاں وہ مسلم لیگی عہدیداران و کارکن سے ملتے اور کیپٹن شاہین کی میزبانی سے مستفیض ہوتے۔ نیویارک سٹی کی ایک سرد شام واشنگٹن سے آئے سینئر صحافی خالد حسن(مرحوم) اور میری موجودگی میں میاں شہباز شریف نے انتہائی جذباتی انداز میں کہا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے نئی زندگی دی ہے اور میں اپنی آئندہ زندگی سادہ طریقے سے بسر کرتے ہوئے دکھی انسانیت کی خدمت کروں گا۔

مکمل صحت یابی کے بعد اپنی روانگی سے قبل میاں صاحب نے پارٹی عہدیداروں اور دوستوں کو ریسٹورنٹ میں عشائیہ دیا اور ان کا شکر یہ ادا کیا۔

چند سال بعد مختلف مواقع پر میاں شہباز شریف سے چند سرسری اور ایک تفصیلی ملاقات ہوئی، اُس وقت مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ میاں صاحب وزیراعلیٰ پنجاب کے منصب پر فائز تھے۔ دورانِ ملاقات میاں شہباز شریف اپنی حکومت کے کارناموں کی تفصیل بتاتے رہے اور پھر مجھ سے رائے مانگی تو میں نے محتاط لفظوں میں انہیں بتایا کہ صوبے میں ہر چیز بہترین چل رہی ہے مگر عوام اور سرکاری ملازمین آپ کے ماتحت تین اعلیٰ افسران پر مشتمل ’’ٹرائیکا‘‘ سے سخت نالاں ہیں اور اس کے فوراً بعد ہماری ملاقات اختتام پذیر ہو گئی۔

جون 2018ء میں پنجاب کی نگران کابینہ میں بطورِ وزیر اطلاعات حلف اٹھانے کے چند روز بعد ہمارے ایک محترم سینیٹر جو میاں شہباز شریف کے انتہائی قریبی دوست ہیں، کا ٹیلی فون آیا اور غصیلے انداز میں کہنے لگے کہ نگران صوبائی حکومت میاں شہباز شریف کو تنگ کر رہی ہے اور اگر ہماری حکومت آگئی تو ہم یاد رکھیں گے، میں نے جواباً انہیں کہا کہ میں آپ کا رابطہ نگران وزیراعلیٰ پنجاب سے کرا دیتا ہوں اور اگر آپ کو کوئی تحفظات ہیں تو وہ معلومات لیکر انہیں دور کریں گے۔

25جولائی 2018ء کے جنرل الیکشن سے چند روز قبل سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے وطن واپسی کا اعلان کر دیا اور 13جولائی کو اپنی آمد کے روز پارٹی لیڈران اور کارکنوں کو لاہور ایئر پورٹ پہنچنے کی کال دے دی۔ 

میاں نواز شریف کو بخوبی علم تھا کہ عدالتی سزاؤں اور مقدمات کی وجہ سے ان کی وطن واپسی پر گرفتاری یقینی ہو گی مگر عوام میں ہمدردی کی لہر کو جنرل الیکشن میں کامیابی کیلئے انہوں نے وطن واپسی کا فیصلہ کیا۔ مختلف شہروں سے کارکنوں کے جلوس اپنے قائدین کی زیر قیادت لاہور کیلئے روانہ ہوئے جن کی اکثریت راستے میں سیلفیاں بنوا کر واپس لوٹ گئی۔

لاہور میں احتجاج کرنے والوں کی تعداد مایوس کن تھی۔ میاں شہباز شریف ایک ریلی کی قیادت کرتے ہوئے ایئر پورٹ کی طرف روانہ ہو چکے تھے۔ مجھ سمیت نگران صوبائی کابینہ کے چند اراکان وزیراعلیٰ ہاؤس میں تمام صورتحال کو مانیٹر کر رہے تھے۔ ملکی اور بین الاقوامی میڈیا بڑی تعداد میں اس ایونٹ کی کوریج کر رہا تھا اور مجھ سے سوالات کررہا تھا۔

خدشہ تھا اگر شہباز شریف کی ریلی ائیر پورٹ کے نزدیک پہنچ گئی تو معاملات تصادم کی طرف جا سکتے ہیں۔ اس موقع پر ہمارے ایک سینئر کولیگ نے مجھے کہا کہ زیادہ فکر مندی کی بات نہیں، ان کو ایک سینئر پولیس افسر نے بتایا کہ میاں شہباز شریف سیکورٹی خدشات کی وجہ سے بلٹ پروف گاڑی سے باہر نہیں نکلیں گے اور نہ ہی ایئر پورٹ پہنچ پائیں گے۔

فلائٹ چند گھنٹوں کی تاخیر سے لاہور ایئر پورٹ پر رات کی تاریکی میں لینڈ ہوئی۔ میاں نواز شریف کو اترتے ہی حراست میں لے لیا گیا، ایئر پورٹ پر ان کو اگلی منزل پر پہنچانے کیلئے ہیلی کاپٹر اور وزیراعلیٰ کا طیارہ موجود تھا۔ میاں نواز شریف نے جیٹ طیارے پر راولپنڈی جانے کو ترجیح دی، یوں وہ ضابطے کی کارروائیوں کے بعد اڈیالہ جیل پہنچا دیے گئے۔

پہلی رات انہیں اپنے سیل میں میٹرس پر سونا پڑا تاہم اگلے روز نگران وزیراعلیٰ اور وزیر داخلہ اسلام آباد گئے اور ایئر کنڈیشنر سمیت تمام سہولتوں کی فراہمی کا حکم صادر کیا۔

اس دوران میاں شہباز شریف اپنے بھائی کیلئے کافی فکر مند رہے اور اپنے قریبی دوست کے ذریعے نگران حکومت کو جیل میں سہولتوں کیلئے زور ڈالتے رہے۔ چند روز بعد ڈاکٹری رپورٹ کی بنیاد پر نگران کابینہ نے مریم نواز کو بھی جیل کے علیحدہ سیل میں ایئر کنڈیشنر کی اجازت دے دی۔

25جولائی 2018ء کو ملکی تاریخ کے سب سے پُرامن اور غیر متنازع الیکشن ہوئے جس کے بعد پی ٹی آئی معمولی اکثریت سے حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی۔ اپوزیشن جماعتوں نے حسبِ روایت انتخابات میں دھاندلی اور مداخلت کا شور بلند کیا مگر ماضی کے الیکشنوں کی طرح اس مرتبہ بھی کچھ ثابت نہ ہو سکا۔

(صاحب مضمون سابق وزیر اطلاعات پنجاب ہیں)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔