Time 01 جون ، 2020
دنیا

امریکا میں بسے سیاہ فاموں کی تاریخ

امریکا میں سیاہ فام، غلاموں کی حیثیت سے افریقا سے لائے گئے تھے—فوٹو فائل

امریکا میں سیاہ فام، غلاموں کی حیثیت سے افریقا سے لائے گئے تھے۔ صدیوں کی بے مثال جدوجہد کے نتیجے میں انھوں نے اپنی غلامی کا خاتمہ کرایا، ووٹ کا حق حاصل کیا اور  پھر ایک دن آیا جب ایک سیاہ فام امریکا کا صدر بنا۔

امریکا میں سیاہ فام افراد افریقا میں غلاموں کی منڈیوں سے خرید کر لائے گئے تاکہ وہ امریکا میں مقامی ریڈ انڈین باشندوں سے چھینی گئی زمینوں پر مزدوری کر سکیں۔ 

1861 میں 11 جنوبی ریاستوں نے امریکا سے الگ ہو کر کنفیڈریشن بنانے کا اعلان کیا، نتیجے میں خانہ جنگی ہوئی جس کے دوران صدر ابراہام لنکن نے غلامی کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔ 

جنوب میں سیاہ فاموں سے امتیازی سلوک جاری رہا تو انھوں نے شمالی ریاستوں اور نیویارک کا رخ کیا جہاں ہارلم کا علاقہ ان کی سیاست کا گڑھ بن گیا۔

یکم دسمبر 1955 کو روزا پارکس کا تاریخی واقعہ پیش آیا۔ روزا ایک بس میں بیٹھی تھی کہ ڈرائیور نے اسے اپنی نشست ایک سفید فام کے لیے خالی کرنے کو کہا۔ روزا کے انکار پر اسے گرفتار کر لیا گیا، اس گرفتاری کے چار روز بعد مارٹن لوتھر کنگ نے اپنے تاریخی احتجاج کا آغاز کر دیا۔

13 نومبر 1956 کو امریکی سپریم کورٹ نے بسوں کے ساتھ ساتھ اسکولوں میں بھی سیاہ فاموں سے امتیازی سلوک اور انھیں الگ بٹھانے کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ 28 اگست 1963 ء کو مارٹن لوتھر کنگ نے واشنگٹن میں ڈھائی لاکھ کے مجمعے کے سامنے ایک تاریخی تقریر کی اور انسانی مساوات کا نیا خواب پیش کیا۔

کنگ نے اپنی جدوجہد کی بنیاد عدم تشدد پر رکھی لیکن چار اپریل 1968 کو مارٹن لوتھر کنگ کو قتل کر دیا گیا تو امریکا کے سو شہروں میں ہنگامے پھوٹ پڑے۔ 

کنگ کے قتل کے وقت جیسی جیکسن ان کے ساتھ موجود تھے جنھوں نے سیاہ فام قیادت سنبھالی۔ 

اکتوبر 1995 میں لوئس فراخان کی قیادت میں ملین مارچ بھی سیاہ فام جدوجہد کا اہم موڑ ثابت ہوا جب کہ 2008 میں سیاہ فام امیدوار باراک اوباما کی فتح سے گویا سیاہ فاموں کو ان کی منزل مل گئی۔ 

اوباما کے حلف کی تقریب میں سیاہ فام امریکیوں کے چہرے اس کامیابی کے غماز تھے۔

واضح رہے کہ چند روز قبل امریکی ریاست منی سوٹا کے دارالحکومت مینی پولس میں سفید فام پولیس اہلکار کے ہاتھوں سیاہ فام شہری کی ہلاکت کے بعد مختلف ریاستوں میں گزشتہ 6 روز سے ہنگامے اور فسادات جاری ہیں اور صورت حال کو کنٹرول میں رکھنے کے لیے مختلف ریاستوں میں کرفیو بھی نافذ کیا گیا ہے۔

مزید خبریں :