01 جون ، 2020
اسلام آباد: معلوم ہوا ہے کہ عمران خان حکومت شوگر کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں شوگر مافیا نیب، ایف آئی اے، ایف بی آر، ایس ای سی پی، اینٹی کرپشن ڈپارٹمنٹ اور مسابقتی کمیشن آف پاکستان کے ذریعے فوجداری، ٹیکس چوری، ریگولیٹری اور کرپشن کی کارروائی شروع کرے گی۔
یہ اقدام صرف ایسی شوگر ملز اور افراد کیخلاف نہیں ہوگا جن کے نام شوگر کمیشن میں سامنے آئے تھے بلکہ متعلقہ اداروں سے کہا جائے گا کہ وہ دیگر شوگر ملوں کا بھی فارنزک آڈٹ کریں تاکہ ہمیشہ کیلئے ’’شوگر مافیا‘‘ کا معاملہ ختم کیا جا سکے۔
حکومتی اقدامات میں گرفتاریاں، مقدمات کا اندراج، فوجداری مقدمات کا اندراج، ٹیکس کارروائی اور ریگولیٹری اقدامات شامل ہیں۔
سرکاری ذرائع نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ سبسڈی کا معاملہ نیب یا ایف آئی اے کو دیا جا سکتا ہے تاکہ ایسے تمام افراد بشمول وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کیخلاف تحقیقات کی جا سکیں جو گزشتہ پانچ سال سے سبسڈی دے رہے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر ان کے معاون خصوصی برائے احتساب اور امور داخلہ شہزاد اکبر شوگر کمیشن کی سفارشات کے مطابق شوگر مافیا کیخلاف کارروائی کیلئے اقدامات اور تجاویز کو حتمی شکل دے رہے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ شوگر مافیا کیخلاف ایکشن پلان کو رواں ہفتے ہی حتمی شکل دے کر اس کا اعلان کیا جا سکتا ہے جو لوگ ایکشن پلان مرتب کر رہے ہیں وہ شوگر کمیشن کی سفارشات پر انحصار کر رہے ہیں۔
ذریعے نے بتایا کہ ہم ان سفارشات پر عمل کریں گے، تمام متعلقہ اداروں کو ان کے دائرہ اختیار کے مطابق یہ کیسز بھیجے جائیں گے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ہر طرح کا جرم، بے ضابطگی، ٹیکس اور ریگولیٹری خلاف ورزیوں کے معاملات کا احاطہ کیا جا سکے اور قصور وار افراد کا احتساب یقینی بنایا جا سکے۔
کہا جاتا ہے کہ جن 9؍ شوگر ملوں کا فارنزک آڈٹ کیا گیا تھا ان میں تقریباً تمام ملز غلط اقدامات میں ملوث تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ متعلقہ اداروں سے اب کہا جائے گا کہ وہ دیگر شوگر ملوں کا فارنزک آڈٹ بھی کریں تاکہ ان کے کردار کا بھی پتہ چل سکے۔
اس سوال کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کیخلاف سبسڈی کے معاملے پر تحقیقات ہوگی یا اس میں صرف سابقہ حکمرانوں کے کردار پر غور کیا جائے گا، کے جواب میں ذریعے نے کہا کہ شوگر کمیشن کے انکشافات کے تحت معاملات نیب یا پھر ایف آئی اے کو بھیجے جائیں گے تاکہ ملوث افراد کیخلاف کارروائی ہو سکے۔
ان ذرائع کا کہنا ہے کہ کسی کو نہیں چھوڑا جائے گا۔ شوگر کمیشن کی رپورٹ میں وزیراعلیٰ پنجاب کے خراب کردار پر روشنی ڈالی گئی ہے جنہوں نے تین ارب روپے کی سسبڈی شوگر ملز کو دی۔
ایک ذریعے نے کہا کہ جب شوگر کمیشن کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پی ٹی آئی کے دور میں نا انصافی ہوئی تو ایسی صورت میں منتخب انداز سے کارروائی نہیں کی جا سکتی۔
شوگر کمیشن کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ جہانگیر ترین،چوہدری گروپ ، عمر شہریار، اومنی گروپ اور شریف گروپ کی شوگر ملوں میں سنگین غلط اقدامات ہوئے ہیں۔
فارنزک رپورٹ میں شوگر انڈسٹری میں ہونے والی سنگین بے ضابطگیوں کا پردہ فاش کیا گیا ہے جن میں کم قیمت پر چینی کی فروخت، بے نامدار خریداروں کو چینی کی فروخت، ڈبل بکنگ، اوور انوائسنگ، کم قیمت پر پھوگ اور شیرہ فروخت کرنا جس کے نتیجے میں مہنگائی ہوئی۔
اس کے علاوہ بھی شوگر ملوں کے لین دین میں کئی کارپوریٹ فراڈ کا انکشاف ہوا ہے۔ وزارت داخلہ کی جانب سے تشکیل دیے گئے اس کمیشن کا کام شوگر ملوں کا فارنزک آڈٹ کرنا تھا۔
کمیشن نے 6؍ شوگر ملوں کا ریکارڈ آڈٹ کیا، ان میں وزیراعظم عمران خان کے قریبی ساتھی جہانگیر ترین کی جے ڈی ڈبلیو شوگر ملز، چوہدری گروپ اور سلمان شہباز کی العربیۃ شوگر ملز شامل ہیں۔
کمیشن کے مطابق یہ تمام شوگر ملز اربوں روپے کے کارپوریٹ فراڈ میں ملوث ہیں۔ پوری شوگر انڈسٹری نے بتایا کہ انہوں نے 124؍ ارب روپے کی چینی فروخت کی ہے جس میں سے 43؍ ارب روپے کی چینی رجسٹرڈ افراد کو فروخت کی گئی۔
اگر انکم ٹیکس دینے والے افراد کو فروخت کی گئی 14؍ ارب روپے کی چینی اس میں سے نکال دیں تو باقی 58؍ ارب روپے کی چینی غیر رجسٹرڈ افراد کو بیچی گئی جو شبہ ہے کہ بے نامدار ہیں۔
اسی طرح رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ چینی کی قیمتوں میں اضافے میں کم پیدوار نے بہت کم کردار ادا کیا ہے۔ قیمتوں میں اضافے کے دیگر پہلوؤں میں مارکیٹ میں ہونے والی ہیرا پھیری، ذخیرہ اندوزی اور سٹہ جیسے عوامل شامل ہیں۔ پیدا ہونے والے گنے اور اس کی کرشنگ میں بہت فرق ہے۔
اس نمایاں خلا کی وجہ کسی حساب کتاب کے بغیر گنے کی خریداری اور اس کے بعد حساب کتاب کے بغیر چینی کی پیداوار کو قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس پہلو کے حوالے سے ٹھوس شواہد بھی موجود ہیں جو فارنسک آڈٹ کے دوران جمع کیے گئے تھے۔
مارکیٹ میں ہونے والی ہیرا پھیری کے حوالے سے رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس بات کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ کچھ شوگر ملوں کے فائدے کیلئے مارکیٹ میں ہیرا پھیری کی گئی اور اس مقصد کیلئے فارورڈ کنٹریکٹ، فروخت کی گئی چینی کی نان لفٹنگ اور سٹے میں ملوث منتخب بروکروز کو چینی کی فروخت کا سہارا لیا گیا۔
اگرچہ اس بات کے واضح اشارے موجود ہیں کہ کارٹلائزیشن موجود ہے لیکن سی سی پی جیسے مرکزی ریگولیٹر ادارے 2009ء میں کارٹلائزیشن کے حوالے سے اپنی رپورٹ جاری کرنے کے بعد سے خاموش رہے۔ شوگر انڈسٹری کو درپیش مسائل 2009ء سے جاری ہیں اور کوئی غیر مانوس معاملہ نہیں ہیں۔
رپورٹ کے مطابق، بروکرز اور سرمایہ کاروں کی ملی بھگت کے ساتھ شوگر ملوں کی سطح پر چینی کی ذخیرہ اندوزی کے بھی ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ شوگر ملیں اپنے گوداموں میں فروخت شدہ چینی کا ذخیرہ چھپا کر رکھتی ہیں جس سے ناجائز فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔
متعلقہ قوانین (رجسٹریشن آف گودام ایکٹ پنجاب اور سندھ) کی موجودگی کے باوجود اسٹاک کرنے والوں یا شوگر ملوں کی جانب سے صوبوں میں چینی اسٹاک کرنے کا کوئی ڈیٹا یا اعداد و شمار موجود نہیں۔
نوٹ: یہ رپورٹ یکم جون کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوئی