شریف برادران کی سیاست میں گومگو کی کیفیت

شریف برادران کی سیاست میں گومگو کی کیفیت—فوٹو فائل

کوئی بھی شخص راتوں رات نظریاتی نہیں بن سکتا،کیونکہ نتائج بھگتنے کے حوالے سے اس کے لئے نہ صرف بڑی قربانیوں بلکہ عزم و حوصلے کی بھی ضرورت ہو تی ہے۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے بغرض علاج طبی بنیادوں پر بیرون ملک جانے سے انکار کردیا ہو تا اور مقید رہنے ہی کو ترجیح دیتے تو وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے لئے مشکلات پیدا کر سکتے تھے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلم لیگ (ن) پاکستان کی ایک بڑی سیاسی قوت ہے، پنجاب میں اس کا ووٹ بینک بھی برقرار ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ گزشتہ 35 سال کے دوران اپنی سیاسی غلطیوں اور حماقتوں کے بھی وہی ذمہ دار ہیں۔ جب وہ ملکی سیاست میں نہایت طاقتور تھے۔

 جیسا کہ کہا جاتا ہے اقتدار کرپٹ کر دیتا ہے اور مکمل اختیارات مکمل کرپشن کا باعث ہو تے ہیں۔ یہ شریف برادران کی سیاست کا طرہ امتیاز رہا ہے کہ انہوں نے اپنے ہی خاندان کے بیشتر ارکان کو اہم عہدوں پر تعینات کیا۔ اس ملک میں سوائے نواز شریف کے کسی اور سیاست دان کو ملک کی قسمت بدلنے کے اتنے موقع نہیں ملے جتنے انہیں حاصل ہو ئے۔ 

سب سے بہترین موقع تو 1997 میں ملا جب انہیں عام انتخابات کے ذریعہ قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت حاصل ہو ئی ۔ ایک سال بعد ایٹمی دھماکے کر کے انہوں نے قومی ہیرو کا درجہ حاصل کر لیا ، وہ اپنی آئینی مدت بخوبی مکمل کر لیتے اگر وہ عجلت میں کچھ فیصلے نہ کرتے۔ سوال یہ پیدا ہو تا ہے انہیں جب بھی مواقع ملے وہ ناکام کیوں ثابت ہوئے ؟ نواز شریف 1990 سے 1993،پھر 1997 سے 1999اور2013 سے 2018 تین بار ملک کے منتخب وزیر اعظم رہے، آخری بار وہ اپنی مدت مکمل نہ کر سکے اور پاناما پیپرز اسکینڈل میں ملوث ہونے کے باعث نا اہل قرار دے کر قبل از مدت باہر کر دیے گئے۔

 باقی دس ماہ عرصہ کے لئے شاہد خاقان عباسی ملک کے وزیر اعظم رہے ،لیکن 1997 میں نواز شریف کے لئے بہترین موقع تھا کہ اپنی پارٹی کی قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت کو بروئے کار لا تے ہو ئے ملک میں جمہوریت کی جڑوں کو مضبوط کر دیتے ۔ 

بے نظیر بھٹو اپنے بھائی مرتضیٰ بھٹو کے قتل کی وجہ سے اداس تھیں بلکہ ان کی حکومت کو خود ان کی پارٹی ہی کے نامزد کردہ صدر سردار فاروق احمد لغاری نے برطرف کر دیا ۔پاکستان میں اصلاحات کے لئے نواز شریف کے پاس بڑا وقت تھا لیکن انہوں نے دوسرا راستہ اختیار کیا ۔ خود پارٹیکے اندر سے بھی انہیں کوئی خطرہ لا حق نہ تھا لیکن انہوں نے جو کچھ لغاری ، جنرل جہانگیر کرامت اور عدلیہ کے ساتھ کیا اور پھر آئینی ترمیم کے ذریعہ مکمل اختیارات حاصل کئے اور پھر سندھ میں غیر ضروری طور پر گورنر راج لگایا، فوجی عدالتیں قائم کیں ،شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان کے مشورے کو نظر انداز کر کے دو سینئر جنرلوں کو نظر انداز کر کے جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف مقرر کیا۔

ان کے بعض رفقا کے خیال میں نواز شریف نے مختصر عرصہ میں بڑی فاش غلطیاں کیں ،بھارتی وزیر اعظم آنجہانی اٹل بہاری واجپائی کے دورہ لا ہور سے عرصہ قبل ان کے جنرل پرویز مشرف سے تعلقات کشیدہ ہو ئے ۔اور پھر کارگل کا واقعہ پیش آیا ۔درحقیقت انہوں نے شہباز شریف اور چوہدری نثار کو بتایا تھا کہ انہوں نے مشرف کے بارے میں غلط مشورہ دیا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ انہوں نے مشرف کو ہٹا کر جنرل ضیا الدین کو آرمی چیف مقرر کر نے پر مذکورہ دونوں شخصیات سے کوئی مشورہ نہیں کیا۔

 اس وقت دونوں رہنما ایک دوسرے کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے ۔ یہ سچ ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے کمانڈروں نے 12 اکتوبر 1999 کو جو کچھ کیا وہ غیر آئینی تھا اور یہ بھی درست ہے کہ پرویز مشرف نے کولمبو روانگی سے قبل اپنے چار قریبی جنرلوں کو اعتماد میں لیا ، ان سے کہہ دیا گیا تھا کہ اگر وزیر اعظم نواز شریف انہیں ہٹانے کے لئے کوئی اقدام کریں تو ان کا تختہ الٹ دیا جائے لیکن یہ صورتحال پیدا ہونے ہی کیوں دی گئی نواز شریف کو جلدی کس بات کی تھی جبکہ ان کے پاس اقتدار کی آئینی مدت کے ابھی تین سال باقی تھے ۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔