پاکستان کا مسئلہ نمبر ون

فوٹو: فائل

ہر شر میں کوئی نہ کوئی خیر بھی چھپا ہوتا ہے۔ کورونا کے شر سے ہم جیسوں کیلئے یہ خیر برآمد ہوا کہ کچھ دنوں کیلئے گھر میں بیٹھ کر لکھنے پڑھنے اور غور و فکر کرنے کا موقع ملا۔ چنانچہ جن کتب کا مطالعہ وقت نہ ملنےکی وجہ سے پچھلے دو سال میں نہیں کر سکا تھا، اس دوران اللہ نے ان کو پڑھنے کی توفیق دی۔

رمضان المبارک کی وجہ سے ایک اور تبدیلی یہ آئی تھی کہ میں نے ٹی وی ٹاک شوز پر جانا بند کردیا تھا جس کی وجہ سے کسی حد تک کچھ وقت کیلئے الزام تراشی اور جھوٹ کے اس کھیل سے دور رہا۔

اگرچہ سوشل میڈیا کے ذریعے یہ گند پھر بھی ہر روز ذہن کو پراگندہ کرنے کی کوشش کرتا رہا لیکن کوشش کی کہ افراد اور جماعتوں سے بالاتر ہوکر جان سکوں کہ پاکستانی معاشرے کا اصل مسئلہ کیا ہے اور یہ کہ یہ پیارا وطن روز بروز زوال اور انحطاط کی طرف کیوں جارہا ہے؟ میں ایک گناہگار انسان اور محدود علم رکھنے والا خطاکار طالبعلم ہوں، یوں میری تشخیص میں غلطی ہو سکتی ہے لیکن اس دوران جو نتائج فکر میں نے حاصل کئے، وہ اپنے قارئین کے ساتھ شیئر کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں۔

میں اس نتیجے تک پہنچا ہوں کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ منافقت ہے۔ کرپشن ہو، قحبہ گری ہو یا دیگر جرائم، اس حوالے سے دنیا کی کئی دیگر اقوام ہم سے بہت آگے ہیں لیکن ان کے مقدر میں وہ ذلتیں نہیں لکھی ہیں جو ہمارے حصے میں آئی ہیں اور چونکہ منافقت کی سزا اللہ نے کفر سے بھی سنگین بتائی ہے اس لئے ہم اس وقت ہر طرح کی ذلتوں کا شکار ہورہے ہیں۔ یہ منافقت کسی ایک طبقے تک محدود نہیں بلکہ اس نے ہر شعبے کو جکڑ رکھا ہے۔

میں روز دیکھتا ہوں کہ جب کیمرے بند ہوتے ہیں تو سیاستدان اپنے لیڈروں کے بارے میں کچھ اور کہہ رہے ہوتے ہیں لیکن کیمرہ آن ہوتے ہی وہ اپنے لیڈر کو مسیحا ثابت کرنے لگتے ہیں۔ اللہ گواہ ہے کہ کئی وزیروں اور مشیروں کو وزیراعظم کے خلاف ایسی گفتگو کرتے ہوئے سنا ہے کہ اپوزیشن والے بھی نہیں کر سکتے۔

اسی طرح مسلم لیگی رہنما خلوتوں میں اپنے لیڈروں سے نالاں نظر آتے ہیں لیکن کیمرے آن ہوتے ہی ان کو محمد بن قاسم اور شیر شاہ سوری ثابت کرنے لگ جاتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے رہنما خلوتوں میں اپنی قیادت کی ڈیل والی سیاست پر تبرا بھی بھیج رہے ہوتے ہیں اور ان کی کرپشن کا رونا بھی رو رہے ہوتے ہیں لیکن کیمرہ آن ہوتے ہی وہ اپنی قیادت کی وکالت میں لگ جاتے ہیں۔ یہی حال ہم اہلِ صحافت کا ہے۔

خلوتوں میں ہر کوئی ذکر کررہا ہوتا ہے کہ اس ملک میں جمہوریت کے نام پر اصلاً کیا نظام چل رہا ہے لیکن کیمروں کے سامنے بیٹھ کر ہم ایک جعلی تاثر دے رہے ہوتے ہیں کہ جیسے اس ملک میں واقعی کوئی مثالی جمہوری نظام چل رہا ہے۔ ہم سب کو معلوم ہے کہ احتساب کے نام پر عملاً کیا ہورہا ہے اور عدالتوں کو کس طرح گمراہ کیا جارہا ہے لیکن ٹاک شوز میں روزانہ ہم احتساب اور لوگوں کے پکڑدھکڑ کے نام پر گھنٹوں ضائع کرلیتے ہیں۔

منافقت کی سزا کفر سے سنگین ﷲ نے یوں مقرر نہیں کی ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ منافقت ام الخبائث ہے۔ منافق کی جو چار نشانیاں ﷲ کے نبیؐ نے بیان کی ہیں، ہمارے ہاں وہ اپنے آخری حدوں کو چھونے لگی ہیں۔ اس وقت آپ دیکھ لیں تو پاکستان میں ہر طبقے میں خیانت کی وبا آخری حدوں تک سرایت کر چکی ہے۔

امانت کی سب سے بڑی قسم وہ ہے کہ جو قوم کی طرف سے کسی کو حوالے کی جائے۔ مثلاً حکمران کو ملک چلانے کی امانت، جج کو انصاف کرنے کی امانت، سرکاری افسر کو خدمت کی امانت، صحافی کو سچ سامنے لانے کی امانت، فوجی کو ملکی دفاع کی امانت۔ آپ دیکھیں تو اس وقت ہر کوئی اپنے سپرد کی گئی امانت میں خیانت کرنے میں لگا ہوا ہے۔

نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ جس کا جو کام ہے وہ اسے نہیں کررہا اور دوسروں کا کام کرنے لگا ہے۔ دوسری نشانی جھوٹ تو اتنی عام ہو گئی ہے کہ پاکستانی قوم کو بغیر کسی تامل کے دنیا کی سب سے زیادہ جھوٹی قوم قرار دیا جا سکتا ہے۔ جو جس قدر جھوٹا اور مکار ہے، وہ اس قدر کامیاب قراردیا جارہا ہے جبکہ سچ بولنے والے اس سوسائٹی میں اجنبی بنتے جارہے ہیں۔ تیسری نشانی یعنی وعدہ خلافی تو اس قوم کا طرہ امتیاز بن گیا ہے۔ جہاں تک آخری نشانی(گالم گلوچ) کا تعلق ہے تو پہلے تو عوامی سطح پر یہ وبا عام تھی لیکن تبدیلی آنے کے بعد اس وبا نے سیاست اور میڈیا کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔

افسوسناک اور تشویشناک امر یہ ہے کہ ہمیں اس بیماری کا احساس ہی نہیں ہے بلکہ ملک چلانے والے بہت خوش ہیں کہ ان بیماریوں کی وجہ سے قوم گرفت میں ہے اور ان کی طاقت و اقتدار کو کوئی خطرہ لاحق نہیں لیکن اس پہلو کی طرف دھیان نہیں دیا جاتا کہ منافقانہ کلچر کے دیگر مضر اثرات کی وجہ سے یہ قوم بیک وقت ظالم اور بزدل قوم بھی بنتی جارہی ہے۔

منافق کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ وہ طاقتور کے سامنے بہت کمزوری دکھاتا ہے لیکن کمزور کے مقابلے میں وہ درندہ بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت ہم اس ملک میں ایک طرف ایسے ایسے مظالم دیکھ رہے ہیں کہ انسان تو کیا وحشیوں سے بھی اس کی توقع نہیں کی جا سکتی لیکن دوسری طرف ہم بزدل ترین اور خوشامدی قوم بن گئے ہیں۔

سیدھی سی بات ہے کہ جو عوام اپنے ملک کے طاقتوروں کے سامنے سچ کی ہمت نہیں کر سکے وہ بیرونی دشمنوں سے کیا لڑ سکیں گے اور جو وزیر اور مشیر اپنے وزیراعظم کے سامنے سچ بولنے کی جرأت نہ کرسکیں، وہ ملکی مفادات کے لئے بڑی بڑی قوتوں کے آگے خاک ہمت کرسکیں گے۔

اس قوم کو مکمل تباہی سے بچانا ہے تو اس کا واحد راستہ بس یہی ہے کہ لوگوں کو سچ بولنے دیجیے۔ جھوٹ اور منافقت کی بنیاد پر کھڑی اقوام زیادہ دیر زندہ نہیں رہ سکتیں۔ قوم کے جسموں پر حکمرانی کے بجائے دلوں پر حکمرانی کی کوشش کیجئے۔

یہ قوم اسی طرح بزدل اور منافق بنتی گئی تو کسی دشمن کے مقابلے کے قابل رہنا تو دور کی بات، کسی بڑے بحران کا بھی سامنا نہیں کر سکے گی۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔