07 جون ، 2020
سیاہ فام شخص کے قتل کے خلاف امریکا میں گزشتہ کئی روز سے جاری مظاہرے ایک تحریک میں تبدیل ہونا شروع ہو گئے۔
امریکا میں سیاہ فام شہری جارج فلائیڈ کے قتل اور نسل پرستی کے خلاف وائٹ ہاؤس، کیپیٹل ہل اور لنکنز میموریل کے سامنے مظاہرےکیے گئے۔
امریکی میڈیا نے دعویٰ کیا تھا کہ مظاہرین کے خلاف فوج تعینات نہیں کی جائے گی لیکن اس کے باوجود وائٹ ہاؤس کے اطراف ڈیڑھ کلومیٹر کا احاطہ رکاوٹیں لگا کر بند کر دیا گیا اور فوج کی بکتر بند گاڑیاں اور سیکڑوں فوجی تعینات کر دیے گئے۔
جیو نیوزسے بات کرتے ہوئے پاکستانی امریکن وکیل سبحان طارق کا کہنا تھاکہ مظاہرین محض قاتلوں کو سزا نہیں بلکہ نظام میں تبدیلی چاہتے ہیں۔
نیویارک شہر کے علاقوں بروکلین اور مین ہٹن میں بھی ہزاروں افراد نے نسل پرستی کے خلاف احتجاج کیا۔
اس صورتحال کے باوجود امریکی صدر ٹرمپ نے "جارج فلائیڈ اچھاآدمی نہیں تھا " کاپیغام دینےوالی ویڈیو ری ٹوئٹ کر دی۔
ویڈیو پیغام کنزرویٹو خاتون نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر شیئر کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ فلائیڈکوشہیدقرار دینا اسے برداشت نہیں۔
پاکستانی امریکن پروفیسر نعیم ظفر کاکہناتھا کہ صدر ٹرمپ کا یہ ویڈیو ری ٹوئٹ کرنا انتخابی مہم کاحصہ ہے۔
لاس اینجسم اور سان فرانسسکو میں بھی ہزاروں افراد احتجاج میں شریک ہوئے۔ مظاہرین کا کہنا تھاکہ سفید فام افراد کے ہاتھوں سیاہ فاموں سے نامساوی سلوک نہیں چلے گا۔
خیال رہے کہ امریکی ریاست منی سوٹا کے شہر مینی پولِس میں 25 مئی 2020 کو سفید فام پولیس اہلکار کے ہاتھوں 45 سالہ سیاہ فام شہری جارج فلوئیڈ ہلاک ہوگیا تھا۔
مینی پولس میں سفید فام پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں سیاہ فام جارج فلائیڈ کے قتل کے بعد ہنگامے پھوٹ پڑے تھے جس نے امریکا کے کئی شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔