صرف ایک جزیرہ بچا ہے!

فوٹو: فائل

ایک طرف تو کورونا کی وجہ سے لوگ مایوسی کا شکار ہوئے ہیں جبکہ دوسری طرف ملک کے موجودہ سیاسی اور معاشی حالات نے لوگوں سے امید چھین لی ہے پژمردگی کا عالم یہ ہے کہ یقین کے ساتھ مستقبل کی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔ 

اس صورت حال کے کئی اسباب ہیں لیکن اہم اور بنیادی سبب یہ ہے کہ لوگوں نے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت سے جو توقعات وابستہ کی تھیں، وہ پوری نہیں ہوئی ہیں۔

اس تحریر کا مقصد لوگوں میں افسردگی یا بے یقینی پیدا کرنا نہیں ہے، میں ہمیشہ ناامیدی کے خلاف مزاحمت کے لئے دلائل ڈھونڈتا ہوں۔ معاشرہ اجتماعی طور پر اس کیفیت سے نکلنے کے لئے خود بھی ایسے راستے بناتاہے، جن کے بارے میں ہم نے کبھی اندازہ نہیں لگایا ہوتا مگر معروضی اور زمینی حقائق کا ادراک نہ کرنا بھی میرے نزدیک نہ صرف راہِ فرار ہے بلکہ مایوسی کی ایک شکل ہے۔ 

اگر 25جولائی 2018کے عام انتخابات کے نتائج پر کوئی اعتراض کیے بغیر ان کا تجزیہ کیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ عوام نے پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کو بظاہر مسترد کر دیا اور پاکستان تحریک انصاف سے امیدیں وابستہ کرتے ہوئے اسے ’’تبدیلی کے نعرے‘‘ پر مینڈیٹ دیا۔ 

تبدیلی کا مطلب یہ نہیں تھا کہ عوام نے دو پرانی سیاسی جماعتوں کے بجائے ایک نئی سیاسی جماعت کو ووٹ دیا بلکہ لوگوں کے ذہنوں میں تبدیلی کا مطلب یہ تھا کہ ملک کے حالات ٹھیک ہوں گے۔ 

معاشی بحران ختم ہوگا، میرٹ اور انصاف کا نظام قائم ہوگا، ملکی دولت لوٹنے والوں کا احتساب ہوگا، غیرجمہوری قوتوں کا عمل دخل ختم ہوگا، سیاسی اور سویلین حکومت مضبوط ہوگی لوگوں کو غربت، تنگ دستی، بےروزگاری سے نجات ملے گی۔ معیاری تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولتیں میسر ہوں گی، بےگھر لوگوں کو گھر ملیں گے اور سب سے اہم بات کہ سیاست میں شائستگی آئے گی اور جمہوری و خوش حال معاشرے کے قیام میں مدد ملے گی۔ 

اس وقت کیا صورتحال ہے؟ اس کی وضاحت میں جانے کی ضرورت نہیں۔ روزانہ پریس کانفرنسوں اور تقریروں کے علاوہ لوگوں کو کچھ نہیں مل رہا۔ جولائی 2018ءسے پہلے والی جو معیشت موجودہ حکومت کو ورثے میں ملی تھی، وہ مزید تباہ ہوئی اور کورونا کی وبا نے تباہی کے اس عمل میں شدت پیدا کی۔ 

لگتا ہے کہ حکومت کی کوئی اپنی معاشی ٹیم نہیں ہے، جو سیاسی تقاضوں کو سمجھتے ہوئے ایک سیاسی جماعت کی ٹیم کے اقتصادی ماہرین کی طرح فیصلے کر سکے۔ گورننس میں کہیں بہتری نظر نہیں آتی۔ سرکاری دفاتر، تھانوں، کچہریوں اور اسپتالوں میں عوام کو پہلے کی طرح ریلیف نہیں ملتا۔ اگر یہ کہا جائے کہ صورتحال مزید خراب ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ 

کورونا کے پیدا کردہ بحران میں حکومت کے فیصلوں کے اثرات بھی سیاسی ردعمل میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ دوسری سیاست کو اس قدر گندا کیا گیا کہ غیرسیاسی قوتوں کی مداخلت کا ہر طرح کا اخلاقی جواز موجود ہے۔ عدالتوں میں چلنے والے کچھ مقدمات سے سویلین اتھارٹی اور سویلین اداروں کی بالادستی کا سوال ازخود نتھی ہو گیا ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ آئین کی 18ویں ترمیم کو رول بیک کرنے اور قومی مالیاتی کمیشن ( این ایف سی ) ایوارڈ کے فارمولے میں غیرمعمولی تبدیلیاں لانے کیلئےبھی ایسی باتیں ہو رہی ہیں، اگر ان پر عمل ہوا تو اسکے پاکستان کے وفاق پر گہرے منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ 

سیاست کمزور، معیشت کا بحران، اداروں کا ٹکراؤ، احتساب کے نام نہاد نظام کا اعتبار بھی بالاخر ختم، وفاقی اکائیوں کے شکوک و شبہات میں اضافہ، کورونا کی تباہ کاریاں اور حکومتی فیصلوں سے مزید کنفیوژن یہ ہے موجودہ منظر نامہ لوگوں کی امید ختم کر دی گئی ہے۔ 

راستہ بنانے والی کوئی سیاسی تحریک فی الحال ابھرتی نظر نہیں آتی۔ پاکستان کے عوام میں جو امید ذوالفقار علی بھٹو کی حیاتی تک لوگوں میں تھی یا محترمہ بےنظیر بھٹو کی وجہ سے جو دوبارہ پیدا ہوئی تھی، ویسی امید اب کہیں دور دور تک نظر نہیں آتی۔

 پاکستان تحریک انصاف اور اس کے قائد وزیراعظم عمران خان نے امید کی اس چنگاری کو بھڑکانے کی کوشش کی۔ انہیں تاریخ نے ایک بہترین موقع فراہم کیا تھا کہ وہ اس چنگاری کو اس الاؤ میں بدل دیں۔ اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا۔ جن خرابیوں کی ذمہ داری ماضی کی سیاسی حکومتوں پر ڈالی جا رہی ہیں، ان خرابیوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ 

ماضی کی سیاسی حکومتوں کی سیاسی قیادت خرابیوں کے دیگر ذمہ داروں کی طرف اشارہ تو کرتی تھیں، حکومت نے ان دیگر ذمہ داروں کی صرف اور صرف پردہ پوشی کی اب لوگوں کے پاس کوئی سہارا نہیں۔ یہ کسی بھی عہد کا سب سے بڑا المیہ ہوتا ہے۔

ہر طرف سے طوفانی مدوجذر ہے۔ صرف ایک جزیرہ بچا ہے، جس پر پناہ لی جا سکتی ہے۔ وہ جزیرہ پارلیمنٹ ہے جو irrelevantہوتی جا رہی ہے۔ پارلیمان ملک کے عوامی اور قومی مسائل سے اپنے آپ کو دور کرتی جا رہی ہے۔ پہلے تو وہ ڈیبیٹنگ فورم تھا اب خیر سے وہ بھی نہیں رہا، اگر پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے لوگ اسے مضبوط کرنے کی بجائے کمزور کریں گے تو پھر کوئی جائے پناہ نہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔