09 جون ، 2020
لاک ڈاؤن نرم کرنے پر عالمی ادارہ صحت نے پاکستان کو خبردار کردیا اور کہا ہے کہ پاکستان لاک ڈاؤن نرم کرنے کی 6 میں سے کسی ایک شرط پر بھی پورا نہیں اترتا۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے پاکستان میں کورونا مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور اموات پرخطرے کی گھنٹی بجاتے ہوئے کہا ہے کہ روزانہ 50 ہزار ٹیسٹ اور کم ازکم 2 ہفتے مکمل لاک ڈاؤن کی ضرورت ہے۔
عالمی ادارہ صحت نے وزیر صحت پنجاب کے نام خط لکھا جس میں تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ کورونا کے حوالے سے ضابطہ کار (ایس او پیز) پر سختی سے عمل نہيں ہو رہا۔
پنجاب حکومت کو لکھے گئے خط میں عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ صوبے میں کورونا کے روزانہ 50 ہزار ٹیسٹ ہونے چاہئیں اور کم از کم 2 ہفتے کا مکمل لاک ڈاؤن وقت کی ضرورت ہے۔
عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ پاکستان میں کورونامریضوں کی تعداد ایک لاکھ سے بڑھنا خطرے کی بات ہے،لاک ڈاؤن کے دوران ہی روزانہ ایک ہزار کیسز رپورٹ ہورہے تھے،لاک ڈاؤن ختم ہونے کےبعد روازنہ مریضوں کی تعداد 4 ہزار سے اوپر ہوگئی ہے۔
'پاکستان میں ٹیسٹ مثبت آنے کی شرح 24 فیصد ہے جو بہت زیادہ ہے'
عالمی ادارہ صحت نے پنجاب حکومت کے نام اپنے خط میں لکھا ہے کہ پاکستان کو سخت فیصلے کرنا ہوں گے ، ہاٹ اسپاٹ کو جلد از جلد لاک ڈاؤن میں لانا ہوگا، صحت کا نظام بہتر کرنا ہوگا۔
ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ٹیسٹ مثبت آنے کی شرح 24 فیصد ہے جو بہت زیادہ ہے ، لاک ڈاؤن میں نرمی سے پہلے اٹھانے کے لیے ضروری اقدامات پر بھی عمل نہیں کیا گيا ، ایس او پيز پر عمل کے لیے شعور اور آگاہی پھیلائی جائے ۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان کے مجموعی مریضوں کے 33.7 فیصد صرف کراچی میں رپورٹ ہوئے۔
عالمی ادارہ صحت نے پنجاب کی وزیر صحت یاسمین راشد کو خط میں تجویز کیا ہےکہ کورونا کا پھیلاؤ روکنے کے لیے دو ہفتے کا لاک ڈاؤن اور دو ہفتے نرمی کی پالیسی اپنائی جائے، ٹیسٹنگ کی صلاحیت روزانہ 50 ہزار تک لے جائی جائے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں کورونا کے کل مریضوں کا 33.7 فیصد کراچی ، 18.5 لاہور ، 5.3 پشاور ، اور پانچ اعشاریہ دو فیصد مریض کوئٹہ میں ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق حکومت نے یکم مئی کو لاک ڈاؤن میں جزوی نرمی کی، 22 مئی کو لاک ڈاؤن میں مکمل نرمی کی گئی جو کرونا کے پھیلاؤ کا باعث بنا۔
'لاک ڈاؤن نرم کرنے سے پہلے چھ بنیادی چيزوں کا خیال رکھنا ہوتا ہے'
عالمی ادارہ صحت کے مطابق لاک ڈاؤن نرم کرنے سے پہلے چھ بنیادی چيزوں کا خیال رکھنا ہوتا ہے، جہاں لاک ڈاؤن نرم کریں وہاں وبا پھیلنے کی رفتار قابو میں ہو، صحت کا نظام بوجھ اٹھانے کے قابل ہو، جو ہاٹ اسپاٹ ہوں ، وہاں صورتحال کنٹرول میں ہوا، اسکولوں ، دفاتر اور دیگر جگہوں پر حفاظتی انتظامات مناسب ہوں، باہر سے آنے والے نئے کیسز کو ڈیل کیا جاسکے اور ایس او پیز پر عمل کے لیے عوام میں آگاہی اور شعور پھیلا جائے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان نے لاک ڈاؤن میں نرمی سے پہلے ان چھ میں سے ایک بھی اقدام پر مکمل عمل نہیں کیا، لاک ڈاؤن کھولنے سے پہلے جو اقدامات کرنے تھے پاکستان نے ایک بھی مناسب طورپر نہیں کیا۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق مشتبہ مریضوں کو ڈھونڈنا ، ٹیسٹ کرنا ، آئسولیٹ کرنا اور انہیں قرنطینہ کرنا اور ان کے رابطوں میں آنے والوں کو ڈھونڈنے کا نظام پاکستان میں بہت کمزور ہے، وینٹی لیٹرز کی تعداد بھی انتہائی کم ہے، پاکستان کی آبادی اپنا طرز زندگی بدلنے پر آمادہ نظر نہيں آتی جیسا کہ سماجی فاصلہ، ہاتھ دھونا اور احتیاطی تدابیر۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق پاکستان دنیا کے ان 10 ملکوں میں شامل ہے جن میں نئے کیسز کی تعداد بہت زیادہ ہے، پاکستان کو اپنی ٹیسٹنگ صلاحیت کو 50 ہزار یومیہ تک بڑھانا نہایت ضروری ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد ایک لاکھ 10 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے جب کہ 2 ہزار 189 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
پنجاب میں کورونا سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد 40 ہزار سے تجاوز کرگئی ہے اور 773 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔
واضح رہے کہ ملک میں کورونا کے کیسز کی تعداد تیزی سے بڑھتے جارہے ہیں جس کے باعث اسپتالوں میں بیڈز، وینٹی لیٹرز اور کٹس کی قلت کا سامنا ہے۔
لاہور میں اسپتالوں کی انتظامیہ کی جانب سے محکمہ صحت کو خط بھیجا گیا ہے جس میں کہا گیا ہےکہ کورونا کے مریضوں کی تعداد کے مقابلے میں انتہائی کم تعداد میں کورونا کٹس فراہم کی جارہی ہیں۔