11 جون ، 2020
اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کا کہنا ہے کہ ریلوے کا حال پھٹیچر ہے، سمجھ نہیں آرہی ریلوے کا کیا بنے گا۔
سپریم کورٹ میں ریلوے ملازمین کی مستقلی سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے کی۔
ریلوے ملازمین کے وکیل محمد رمضان نے کہا کہ 20، 20 سال سے یہ ملازمین ریلوے میں کام کر رہے ہیں، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے پوچھا کہ کیا یہ سارے کنٹریکٹ ملازمین تھے؟
وکیل محمد رمضان نے بتایا کہ نہیں یہ ملازمین روزانہ اجرت پر تھے اور ریگولر پوسٹ کا کام کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا ان لوگوں کی تقرری کے لیے اشتہار دیا گیا تھا؟ جس پر وکیل ملازمین نے بتایا کہ نہیں ان ملازمین کی تقرری کے لیے اشتہار نہیں دیا گیا۔
جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ ریلوے کا حشر اسی لیے خراب ہے، ہر چیز کا کوئی طریقہ کار ہوتا ہے، لیکن ریلوے کے اندر کوئی طریقہ کار نہیں اس لیے ریلوے کا یہ حال ہے، ہمیں کوئی ایک کاغذ دکھا دیں جس سے پتا چلے یہ ریلوے کے ملازمین ہیں۔
ملازمین کے وکیل نے کہا کہ ملازمین کے سارے کاغذات ریلوے کے پاس جمع ہوتے ہیں، ریلوے ان لوگوں کی وجہ سے ہی چل رہی ہے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ان ملازمین کو کس پراجیکٹ کے لیے تقرری کی گئی تھی، کچھ پتا نہیں چل رہا یہ کون تقرریاں کر رہا ہے۔
جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ کل پھر ٹرین کی بوگی پٹری سے اترگئی ، شکرہے کسی کی جان نہیں گئی لیکن کروڑوں کا نقصان تو ہوگیا، سمجھ نہیں آرہی ریلوے کا کیا بنے گا۔
نمائندہ وکیل ریلوے نے کہا کہ مختلف ڈپارٹمنٹس کی تجویز پر ان ملازمین کی تقرری کی جاتی ہے، یہ ملازمین ریلوے ٹریک پر گیٹ کیپرز ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ، اتنی اہم جگہ پر ریلوے اراضی لوگوں کو الاٹ کر رہا ہے؟ آئے روز ریلوے میں حادثات ہو رہے ہیں، ریلوے کیسے ان لوگوں کی عارضی تقرریاں کر رہا ہے؟
جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ریلوے افسران بڑی بڑی تنخواہیں لے کر بیٹھے ہیں، ایک وقت تھا کہ اس کام کے لیے بڑے تجربہ کار لوگوں کو رکھا جاتا تھا، اب ریلوے کا حال بالکل ہی پھٹیچر ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وکیل صاحب کو کچھ پتا ہے نہ ہی ریلوے حکام کو کچھ پتہ ہے۔
عدالت نے سیکرٹری ریلوے کو طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔