Time 14 جون ، 2020
بلاگ

کورونا زدہ معیشت

فوٹو فائل—

امیر سے امیر تر کی خواہش بھی کیسی عجیب و غریب ہے۔ بیچارے غریب کا کوئی نہیں سوچتا۔ غریب بیچارہ تو یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ میں اس بجٹ کو مسترد کرتا ہوں۔

بجٹ پر شور وغوغا جاری ہے۔اپوزیشن طرح طرح کے اعتراضات اٹھارہی ہے۔طرح طرح کی لن ترانیاں سنائی دے رہی ہیں۔کوئی مسترد کر رہاہے تو کوئی ملک دشمن قرار دے رہا ہے۔

کسی کا موقف ہے کہ اس’’کورونا زدہ معیشت‘‘میں اس سے بہتر بجٹ پیش کرنا ممکن ہی نہیں تھا۔بجٹ پرموسمیاتی تبدیلی کی وزیرزرتاج گل کا بیان مجھے سب سے اچھا لگا ہے۔فرماتی ہیں ’’6ارب روپے موسمیاتی تبدیلی کے لیے مختص کرنا وزیراعظم عمران خان کے وژن کی شاندار عکاسی ہے۔‘‘

سچ تو یہ ہے کہ چھ ارب موسمیاتی تبدیلی کے لیے اونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہےمگر یہ تھوڑا ہےکہ دنیا میں ہونے والی موسمی تبدیلیوں پر نظر رکھنے کاکام جاری ہے۔ویسے بھی موسم کے ساتھ گل کا گہرا تعلق ہے۔فیضؔ نے کہا ؎

رنگ پیرہن کا،خوشبو زلف لہرانے کا نام

موسمِ گل ہے تمہارے بام پر آنے کا نام

بجٹ ہندسوں کاایک گورکھ دھندا ہوتا ہے۔مجھ جیسے کمزور ریاضی رکھنے والےاِس کی گتھیاں کہاں سلجھا سکتے ہیں۔مجھے تو بس اتنا معلوم ہے کہ پہلے میری کار کا ٹینک تقریباً ساڑھے پانچ ہزار روپے کے پٹرول میں بھرتا تھا۔

اب چار ہزارمیں بھرتا ہے۔جب عمران خان نے اقتدار سنبھالا تھا ملک مہنگائی کی لپیٹ میں تھا جو مسلسل بڑھتی رہی مگر رفتہ رفتہ حکومت نےاُس پر کنٹرول کرلیا ہے۔اب پہلے جیسی مہنگائی نہیں رہی اور حکومت کا خیال ہےکہ اگلے چند ماہ میں اس کا گراف اور بھی نیچے آجائے گا؎

شاخیں رہیں تو پھول بھی پتے بھی آئیں گے

یہ دن اگر برے ہیں تو اچھے بھی آئیں گے

اس بجٹ میں حکومت نے کوئی نیا ٹیکس نہ لگانے کا اعلان کیا ہے۔بہت سے لوگ اس بات کو سراہ رہے ہیں مگر کچھ ایسے لوگ بھی ہیںجو کہتے ہیں کہ حکومت کو امیروں کے استعمال کرنے والی اشیا پر ٹیکس لگانا چاہئے تھا۔دنیا کے مقابلے میں پاکستان میں امیر وں پر سب سے کم ٹیکس ہے اور وہ بھی پورا نہیں دیتے۔

اس کے مقابلے میںجو اشیا غریب لوگ استعمال کرتے ہیں اُس پر بہت زیادہ ٹیکس لگا ہوا ہے جو انہیں مجبوراً ادا کرنا پڑتا ہے۔میرؔ نے کہا تھا؎

ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی

چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا

لوگ کہہ رہے ہیں غریبوں کے ساتھ بجلی کی مد میں خاصا خرابہ کیا گیا ہے۔ 201 ارب روپے کی وہ سبسڈی جو 300 یونٹ سے کم بجلی استعمال کرنے والے گھریلو اور زرعی ٹیوب ویل استعمال کرنے والے صارفین کو دی جارہی تھی۔ وہ 124ارب روپے کر دی گئی۔یہ کوئی اتنی بڑی رقم تو نہیں تھی جو کسی اور ادارے کے بجٹ سے نہیں نکالی جا سکتی تھی۔

جس کےلیے غریب اور دہقان کو ٹارگٹ کرنا ضروری ہو گیا تھا۔(مرے کو ماریں شاہ مدار )بہر حال یہ غلط کیا گیا ہے اس پر حکومت کو نظرثانی کرنا چاہئے۔اس وقت زمین دار کی حالت بہت خراب ہے۔ دہقان کو دیکھ کر اقبالؔ یاد آجاتا ہے جس نے کہا تھا؎

دہقاں ہے کسی قبر کا اُگلا ہوا مُردہ

بوسیدہ کفن جس کا ابھی زیرِ زمیں ہے

بجٹ میں جس بات کو تقریباً سب لوگوں نے سراہا ہے کہ کورونا کے تدارک کےلئے بارہ سو ارب مختص کئے گئے ہیں۔جس میں غریب خاندانوں کی مدد کےلئے بھی ایک سو پچاس ارب رکھے گئے ہیں۔

کورونا کی روک تھام کےلئے اگر اس رقم کا درست اور فوری استعمال کیا گیا تو ان شاءاللہ ہم ضروراس وبا سے نجات حاصل کرلیں گے اور رحمان فارس کے اس شعر سےلطف اندوز ہوتے پھریں گے؎

‏سب کچھ جو چمکدار ہو، سونا نہیں ہوتا

‏ہر چھینک کا مطلب تو، کورونا نہیں ہوتا

دنیا امید پر قائم ہے۔وہ وقت دور نہیں جب دنیا پھر سےروشنی اور خوشبو کے گیت گائے گی اورایک دوست دوسرے سے کہہ رہا ہوگا؎

لگ میرے گلے دوست، ذرامیز پرے کر

کم بخت کورونا کا یہ پرہیز پرے کر

بجٹ میں ایک اچھی خبر یہ تھی کہ حکومت نےموبائل فون بنانے کی اجازت دے دی ہے اور پاکستانی موبائل فون پر ٹیکس بھی بہت کم لگایا گیا ہے۔یہاں میرے لیے یہ بات عجیب تھی کہ پاکستان میں موبائل فون بنانے کی پہلے اجازت نہیں تھی۔ یہ کتنی عجیب بات ہے۔یقیناً کئی اور چیزیں بھی ہوں گی جن کے بنانے پر پابندی ہو گی۔

مجھے پاکستانی حکومت کی یہ منطق سمجھ میں نہیں آرہی کوئی شخص کوئی چیز بنانا چاہتا ہے اس کیلئے سرکاری اجازت نامہ کی ضرورت کیوں ؟میرے خیال میں حکومت کو فوری طور اس بات پر توجہ دینا چاہئے تاکہ ہمارا واسطہ میڈ اِن پاکستان چیزوں سے بھی پڑے۔

ایک بات جو مجھے سب سے زیادہ عجیب لگی ہے کہ انجمن تاجران نے اس بجٹ کو مسترد کردیا ہے کہ اس میں تاجروں کیلئے کوئی ریلیف موجود نہیں۔ تاجر اس ملک کا کھاتاپیتا طبقہ ہے۔

انہیں اپنا بڑا خیال ہے۔امیر سے امیر تر کی خواہش بھی کیسی عجیب و غریب ہے۔ بیچارے غریب کا کوئی نہیں سوچتا۔ غریب بیچارہ تو یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ میں اس بجٹ کو مسترد کرتا ہوں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔