ثابت ہوگیا عمران فاروق کو قتل کرنے کا حکم بانی متحدہ نے دیا، عدالتی فیصلہ

اسلام آباد کی انسداد دہشتگردی کی عدالت نے متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے بانی رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کے جرم میں تین مجرموں کو عمر قید کی سزا سنادی جبکہ بانی ایم کیو ایم سمیت چار اشتہاری ملزما کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کردیے۔

عدالت نے اپنے تفصیلی فیصلے میں کہا کہ ثابت ہو گیا ہے کہ بانی ایم کیو ایم نے ہی ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کے احکامات جاری کیے۔

انسداد دہشت گردی عدالت نے ایم کیو ایم کے رہنما عمران فاروق قتل کیس میں جرم ثابت ہونے پر 3 مجرموں خالد شمیم، معظم علی اور محسن علی سید کو عمر قید کی سزا سناتے ہوئے 10، 10 لاکھ روپے مقتول کے ورثاء کو ادا کرنے کا حکم دیا جبکہ بانی ایم کیو ایم سمیت چار اشتہاری ملزمان کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے جائیداد ضبطگی کے احکامات بھی دیے ہیں۔

عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ 'یہ ثابت ہو گیا ہے کہ بانی ایم کیو ایم نے ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کا حکم دیا ، قتل کا واحد مقصد بانی ایم کیو ایم کی ہدایت پر پارٹی میں سیاسی رکاوٹ دور کرنا تھا'۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت نے صبح ساڑھے 11 بجے کیس کا مختصر فیصلہ سنایا جس کے بعد 39 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کیا گیا۔

فیصلہ سننے کے لیے پراسیکیوشن ٹیم ، وکلاء صفائی اور ملزمان کے اہل خانہ کمرہ عدالت میں موجود تھے جبکہ تینوں گرفتار ملزمان کو اڈیالہ جیل سے وڈیو لنک کے ذریعے عدالتی کارروائی کا حصہ بنا یا گیا۔

'قتل کا واحد مقصد بانی ایم کیو ایم کی ہدایت پر پارٹی میں سیاسی رکاوٹ دور کرنا تھا'

فیصلہ سنانے سے قبل ملزمان کی حاضری لگائی گئی۔ جج نے اس دوران سماجی فاصلے کا خیال رکھنے کی ہدایت کی ۔

عدالت نے کہا کہ استغاثہ اپنا کیس ثابت کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے اس لیے مجرموں کو عمر قید کی سزا سنائی جاتی ہے،  وہ 10-10 لاکھ روپے مقتول کے قانونی ورثاء کو بھی ادا کریں گے۔

عدالت نے تفصیلی فیصلے میں لکھا کہ مجرمان محسن علی، معظم علی اور خالد شمیم کو قتل اور دہشت گردی ایکٹ کی دفعات کے تحت الگ الگ عمر قید کی سزا دی جا رہی ہے تاہم تمام سزائیں ایک ساتھ شروع ہوں گی اور مجرموں کا ٹرائل کے دوران بطور ملزم جیل میں گزرا وقت بھی سزا کی مدت میں شامل تصور ہو گا۔

عدالت نے کہا یہ ثابت ہو گیا ہے کہ بانی ایم کیو ایم نے ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کا حکم دیا،  قتل کا واحد مقصد بانی ایم کیو ایم کی ہدایت پر پارٹی میں سیاسی رکاوٹ دور کرنا تھا، ملزمان کے مجسٹریٹ کو ریکارڈ کرائے گئے اعترافی بیانات اور پیش کردہ شواہد کی کڑیاں آپس میں ملتی ہیں۔

قتل کیلئے محسن علی اور کاشف خان کامران کو نائن زیرو سے منتخب کیا گیا

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ محسن علی اور کاشف خان کامران کو ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو سے قتل کے منصوبے پر عمل درآمد کے لیے چنا گیا۔ قتل کا مقصد لے کر لندن جانے والے دونوں قاتلوں کو باقاعدہ سہولت فراہم کی گئی۔ قتل کا مقصد یہ تھا کہ آئندہ کوئی پارٹی میں بانی ایم کیو ایم کے خلاف آواز بلند نہ کر سکے۔

فیصلے کے مطابق  باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت معصوم شخص کو قتل کرنے والے قرار واقعی سزا کے مستحق ہیں۔ قتل کے اس مقدمہ میں سزائے موت بنتی ہے مگر برطانیہ سے شواہد ملنے کے باعث سزائے موت نہیں دی جا سکتی۔ پاکستان پینل کوڈ میں ترمیم کے تحت ایسے مقدمات میں سزائے موت نہیں دی جاسکتی جن میں شواہد باہمی قانونی معاونت کے تحت دوسرے ممالک سے حاصل ہوں۔ 

عدالت نے مقدمہ میں بانی ایم کیو ایم سمیت ، افتخار حسین، محمد انور اور کاشف کامران کو اشتہاری ملزم قرار دیتے ہوئے ان کے دائمی وارنٹ گرفتاری جاری کیے اور جائیداد ضبطگی کے احکامات بھی دیے۔ 

دوسری جانب ڈاکٹرعمران فاروق کی بیوہ شمائلہ فاروق کا کہنا ہے کہ دو چیزیں بہت طاقتور ہیں صبراور وقت، مجھے شروع سے اللہ پر یقین تھا، جوبھی فیصلہ ہوا بہتر ہے۔

شمائلہ فاروق نے کہا کہ عدالتی فیصلے پرمزید تبصرہ نہیں کرنا چاہتی، زندگی دکھ میں گزاررہی ہوں، اللہ دشمن کوبھی یہ وقت نہ دکھائے۔

عمران فاروق قتل کیس کا پس منظر

ڈاکٹر عمران فاروق کو 16 ستمبر 2010 کو برطانیہ میں قتل کر دیا گیا تھا جس کے بعد وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے 5 دسمبر 2015 کو پاکستان میں اس قتل کا مقدمہ درج کیا تھا جس میں تین ملزمان خالد شمیم، محسن علی اور معظم علی کو گرفتار کیا گیا۔

گرفتار ملزمان پر قتل سمیت قتل کی سازش تیار کرنے، قتل میں معاونت اور سہولت کاری کے الزامات عائد کیے گئے جب کہ 2 گرفتار ملزمان خالد شمیم اور محسن علی نے 7 جنوری 2016 کو مجسٹریٹ کے روبرو اعترافی بیانات ریکارڈ کرائے تاہم دوران ٹرائل اپنے بیانات سے مکر گئے۔

تینوں ملزمان پر 2مئی 2018 کو فرد جرم عائد کی گئی جب کہ 4 ملزمان بانی متحدہ، محمد انور، افتخار حسین اور کاشف کامران کو اشتہاری قرار دیا گیا۔

دوران سماعت استغاثہ کے 29 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کیے گئے، کیس کے برطانوی چیف انویسٹی گیٹر نے عدالت میں بیان ریکارڈ کرایا جب کہ مقتول کی اہلیہ سمیت دیگر برطانوی گواہوں نے ویڈیو لنک پر بیانات ریکارڈ کرائے جن میں پڑوسی عینی شاہدین، پولیس حکام، فارنزک ایکسپرٹ اور پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹر شامل ہیں۔

پاکستانی حکومت کی جانب سے برطانیہ کو دوران ٹرائل جرم ثابت ہونے کے باوجود ملزمان کو سزائے موت نہ دینے کی یقین دہانی کرائی گئی جس کے بعد کیس میں پیشرفت ہوئی اور برطانیہ نے باہمی قانونی معاونت کے تحت شواہد فراہم کیے۔

ملزمان کی ٹریول ہسٹری، موبائل فون ڈیٹا، فنگر پرنٹس رپورٹ، مقتول کا ڈیتھ سرٹیفکیٹ اور پوسٹ مارٹم رپورٹ کو بطور شواہد ریکارڈ کا حصہ بنایا گیا۔

ملزمان کی جانب سے عارف خان، محمد بخش مہر اور ذیشان چیمہ ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئے جب کہ ایف آئی اے کی جانب سے خواجہ امتیاز بطور اسپیشل پراسیکیوٹر پیش ہوتے رہے اور برطانوی ماہر قانون ٹوبی کیڈ مین کی خدمات بھی حاصل کی گئیں۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج شاہ رخ ارجمند نے سماعت مکمل ہونے پر 21 مئی کو فیصلہ محفوظ کیا تھا جو آج سنا دیا گیا ہے۔

مزید خبریں :