23 جون ، 2020
معروف نعت خواں جنید جمشید کے طیارے کو پیش آنے والے حادثے کی تحقیقات بھی سامنے آگئيں، جہاز کے اُڑان بھرنے سے پہلے ہی اہم ترین پرزہ ٹوٹا ہوا تھا، دوسرا خراب تھا۔
پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائنز (پی آئی اے) کے 2016 میں تباہ ہونے والے اے ٹی آر طیارے کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ حکومت کو پیش کردی گئی۔
رپورٹ کے مطابق دسمبر 2016 میں پی آئی اے کے اے ٹی آر طیارے نے چترال سے اسلام آباد کے لیے اُڑان بھری تو انجن کی پاور ٹربائن کا اسٹیج ون بلیڈ یعنی (PT 1 ) بلیڈ ٹوٹ کراپنی جگہ سے ہٹا جس سے پاور ٹربائن شافٹ کی گردش متاثر ہوئی جب کہ او ایس جی پن بھی ٹوٹی ہوئی تھی۔
تحقیقاتی ٹیم نے شبہ ظاہر کیا ہے کہ پاور ٹربائن اسٹیج ون بلیڈ اور او ایس جی پن حادثے سے پہلے پشاور سے چترال آنے کے دوران ہی ٹوٹ چکے تھے مگر پھر بھی طیارے کو اگلی پرواز کے لیے روانہ کردیا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکا میں او ایس جی پن کے دھاتی تجزیے سے پتا چلا کہ کسی مینٹینس کے دوران اسے غلط طور پر فٹ کیا گیا تھا۔
طیارے کی آخری مینٹینس کینیڈا میں ہوئی تھی جہاں نہ صرف او ایس جی کی موڈی فکیشن کی گئی بلکہ پارٹ نمبر بھی تبدیل کیا گیا۔
پرواز کے دوران شام 4 بجکر 5 منٹ اور 31 سیکنڈز پر خرابی شروع ہوئی اور یہ خرابی تھی انجن آئل میں ایندھن کی آلودگی شامل ہونا جس نے ٹوٹے ہوئے او ایس جی پن اور پاور ٹربائن اسٹیج ون بلیڈ کے ساتھ مل کر پروپیلر کی رفتار کم کردی اور پروپیلر الیکٹرانک کنٹرول میں خرابی پیدا ہوگئی۔
4 بجکر 10 منٹ اور 34 سیکنڈز پر انجن نمبر ایک فیل ہوگیا اور 4 بجکر 11 منٹ اور 53 سیکنڈز پر او ایس جی نے کام کرنا بند کردیا۔
بدقسمت طیارے کے پائلٹس نے بالکل ایک نئی قسم کی خرابی دیکھی جو اس سے پہلے اے ٹی آر طیاروں میں کبھی نہیں دیکھی گئی اور 4 بجکر 20 منٹ پر طیارہ حویلیاں کے مقام پر گر کر تباہ ہوگیا۔
رپورٹ کے مطابق انجن کے ڈیزائن میں تبدیلی مینوفیکچرر کی غلطی تھی جسے درست کرنے کے لیے بہتر ڈیزائن تجویز کیا گیا مگر پی آئی اے طیارے کی خرابیاں دور کرنے کا عمل بروقت مکمل نہ کر سکی جب کہ سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) نے بھی اس عمل کی درست نگرانی نہیں کی۔
عبوری رپورٹ میں حادثے کے ذمہ داروں کا حتمی تعین نہیں کیا گیا تاہم یہ تاثر ضرور ملتا ہے کہ حادثہ فنی خرابیوں، غلط منٹینس اور انسانی کوتاہیوں کے نتیجے میں پیش آیا اور اس لحاظ سے پی آئی اے، سول ایوی ایشن اتھارٹی، طیارہ اور انجن ساز کمپنی ذمہ دار قرار پاتے ہیں۔
حادثے کی حتمی رپورٹ آنے میں ابھی مزید وقت لگے گا۔ خیال رہے کہ 7 دسمبر 2016 کو ہونے والے اس حادثے میں معروف نعت خواں جنید جمشید اور عملے سمیت 48 مسافر جاں بحق ہوئے تھے۔