لیکن عمران خان کو کون سمجھائے!

فائل فوٹو

گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے اپنی کابینہ کے اراکین سے کہا ہے کہ وزراء کاردگی بہتر بنائیں ورنہ چھ ماہ میں معاملات ہاتھ سے نکل جائیں گے۔ حقیقت میں حالات تو پہلے ہی ہاتھ سے نکل چکے ہیں۔

مجھے نہیں معلوم کہ خان صاحب کے وزراء آئندہ چھ ماہ کے دوران کیا کچھ ایسا کر لیں گے جو وہ پہلے کرنے میں ناکام رہے۔ سچ پوچھیں تو پاکستان کو اس موجودہ حالت تک لانے میں خان صاحب اور ان کے وزراء کا اہم کردار رہا ہے۔

معیشت کا کوئی حال نہیں، گورننس بہت خراب ہو چکی، ایک کروڑ نوکریاں ملنا تو درکنار، لاکھوں کروڑوں اپنا روزگار گنوا بیٹھے۔ ملکی قرضوں میں موجودہ حکومت کے 22ماہ کے دوران ریکارڈ اضافہ ہوا جو پچھلے 71سال کے کُل قرضوں کے چالیس فیصد سے بھی زیادہ ہے۔

روپے کے مقابلہ میں ڈالر اتنا گرا دیا کہ اب سنبھلنے کا نام نہیں لے رہا۔ کہا جا رہا تھا کہ ڈالر مہنگا ہوگا تو ملک کی برآمدات میں اضافہ ہو گا لیکن ملک کو کھربوں کا نقصان پہنچا دیا لیکن کچھ فائدہ نہیں ہوا۔

وعدہ کیا گیا تھا کہ جب ہم آئیں گے تو ٹیکس دگنا اکٹھا ہوگا لیکن حقیقت میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ گزشتہ دو سال سے جو ٹیکس اکٹھا کیا جا رہا ہے وہ اُس سے بھی کم ہے جو نون لیگ کے آخری سال کے دوران اکٹھا ہوا۔ معیشت کی خرابی ہو، قرضوں میں سنگین اضافہ کی بات ہو یا کوئی اور خرابی، موجودہ حکمرانوں کا عموماً یہی جواب ہوتا ہے کہ پچھلے حکمران حالات اتنے خراب کر گئے کہ یہ سب تو ہونا ہی تھا۔

اپنی نااہلی اور نالائقی پر بات نہیں کرتے، کب تک پچھلے حکمرانوں کو ہر خرابی اور اپنی ہر ناکامی کا ذمہ دار ٹھہراتے رہیں گے۔

اگر ہم مان بھی لیں کہ موجودہ حکمران بڑے صاف ستھرے اور پرانے سارے چور اچکے تھے تو ایسا کیوں ہے کہ ٹیکس ’’ایمانداروں‘‘ کی حکومت کے دوران ’’چوروں‘‘ کے دور سے کم اکٹھا کیا جا رہا ہے۔ عمران خان کے اپنے وزیر فواد چوہدری نے جو کہا وہ دراصل اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہے کہ عمران خان کی حکومت کی کارکردگی خراب ہے اور حکومت اپنے وعدے پورے کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔

فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ عوام نے ہمیں معمولی نٹ بولٹ ٹھیک کرنے کیلئے منتخب نہیں کیا بلکہ عمران خان کو پورے نظام کی اصلاح کیلئے منتخب کیا گیا ہے۔ اُنہوں نے تسلیم کیا کہ لوگوں کی توقع کے مطابق تبدیلی نہیں لا سکے۔ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ وزیراعظم کے وژن پر جس طرح عملدرآمد ہونا چاہئے تھا، وہ نہیں ہو سکا۔

حکومتی وزیر کا کہنا تھا کہ ہم ایک معمول کی حکومت چلا رہے ہیں، لوگوں کی حکومت سے توقعات پوری نہیں ہوئیں، حکومت اپنی سیاست اور گورننس کو بہتر نہیں کرتی تو کسی وقت بھی چیزیں سرک سکتی ہیں۔

اسی دوران تحریک انصاف کے ایک رہنما راجہ ریاض نے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت آئی تو کرپشن میں تین گنا اضافہ ہو گیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ غیر منتخب افراد کو اہم عہدے دے دیے گئے جبکہ اُن کے لیے وزیراعظم کو ملنا بھی مشکل ہے۔

اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ وزیراعظم سمجھتے ہیں کہ سیاسی لوگ صرف اپنے مفاد کی ہی بات کرتے ہیں یعنی اب حکومت کے اپنے لوگ بھی عمران خان کی حکومت کی ناکامیوں اور نااہلیوں پر بول پڑے ہیں۔

عمران خان بظاہر اپنے وزراء کی کاردگی سے خوش نہیں اور اسی لیے وہ اُن کی پرفامنس کو بہتر بنانے کی بات کر رہے ہیں۔ لیکن سچ پوچھیں تو قصور وزیروں مشیروں کا نہیں بلکہ عمران خان کا اپنا ہے جنہوں نے یہ ٹیم چنی۔

قصور عمران خان کا اس لیے بھی ہے کہ اُنہوں نے اپنی حکومت کے پہلے دن سے سیاسی ماحول خراب کیے رکھا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ وہ اور اُن کے وزراء اپوزیشن سے ہر وقت لڑائی جھگڑے کے موڈ میں ہی رہیں۔ بار ہا کہا گیا کہ اس طرح حکومتیں نہیں چلتیں۔

کتنی بار یاد دہانی کرائی گئی کہ معیشت کو مستحکم کرنا ہے تو اس کے لیے سیاسی استحکام لازم ہے لیکن خان صاحب نے نہ پہلے ایسا کوئی مشورہ مانا نہ وہ اب ایسی کوئی بات سننے کے لیے تیار ہیں۔

ایسے میں وزیر اچھے بھی ہوں تو خراب ماحول میں وہ کچھ کرنے سے قاصر رہیں گے لیکن عمران خان کو کون سمجھائے!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔