25 جون ، 2020
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے پائلٹس کے جعلی لائسنس کے معاملے کا نوٹس لے لیا اور ڈائریکٹر جنرل سول ایوی ایشن سے 2 ہفتے میں جواب طلب کرلیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے پائلٹس کے جعلی لائسنسز کا نوٹس کورونا ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران لیا۔
سپریم کورٹ نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ ڈی جی سول ایوی ایشن وضاحت کریں کہ پائلٹس کو جعلی لائسنس دینے والوں کے خلاف کیا کارروائی ہوئی؟
عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ مسافروں کی جان خطرے میں ڈالنا سنگیں جرم ہے، عدالت نے پاکستان انٹرنیشنل ائیرلائنز (پی آئی اے) ، ائیر بلو اور سیرین ائیر لائن کے سربراہان کو بھی آئندہ سماعت پر پیش ہونے کا حکم دے دیا۔
عدالت عظمیٰ نے تمام ائیر لائنز کے سربراہان کو پائلٹس کی ڈگریوں اور لائسنس کی تصدیق پر مبنی رپورٹس بھی فراہم کرنے کی ہدایت کی ہے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ کل ایوان میں وزیر ہوابازی کا بیان سن کر حیرت ہوئی، تمام جہاز چلتے پھرتے میزائل لگتے ہیں، کچھ معلوم نہیں کہ مسافروں سے بھرے میزائل کب کہاں پھٹ جائیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وزیر ہوابازی کے بقول 15 سال پرانے جہاز میں کوئی نقص نہیں تھا، سارا ملبہ پائلٹ اور سول ایوی ایشن پر ڈال دیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ قومی ائیر لائن پی آئی اے نے مشتبہ لائسنس رکھنے والے تمام پائلٹس کو گراؤنڈ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ترجمان پی آئی اے کے مطابق مشتبہ لائسنس کے حامل 150 پائلٹس کو طیارہ اڑانے سے روک دیا گیا ہے اور جو پائلٹ اپنے لائسنس کی تصدیق کرالیں گے انہیں ڈیوٹی پر واپس لے لیا جائےگا۔
ترجمان نے کہا کہ اتنی بڑی تعداد میں پائلٹس کو گراؤنڈ کرنے سے پی آئی اےفلائٹ آپریشن متاثر ہوگا لیکن فلائٹ سیفٹی اور مسافروں کا تحفظ تجارتی مفادات سے بالا تر ہے۔
ترجمان نےبتایا کہ جعلی ڈگری کے حامل 6 پائلٹس کو پہلے ہی ملازمت سے نکالا جا چکا ہے۔
واضح رہےکہ 22 مئی کو کراچی آنے والی قومی ائیر لائن کی پرواز پی کے 8303 جناح انٹرنیشنل ائیرپورٹ کے قریب آبادی پر گر کر تباہ ہوگئی جس سے 97 افراد جاں بحق جب کہ دو افراد معجزانہ طور پر محفوظ رہے تھے۔