پاکستان
Time 03 جولائی ، 2020

کیا جج ارشد ملک کی برطرفی کے بعد نواز شریف کی سزا ختم ہوجائے گی؟

دونوں کیسزمیں نوازشریف بری بھی ہوسکتے ہیں اورانہیں سزا بھی ہوسکتی ہے: معرف قانون دان— فوٹو:فائل

ماہر قانون بیرسٹرعلی ظفر نے کہا ہے کہ اگر کسی جج پر دباؤ ثابت ہوجائے تو کیس کا فیصلہ بھی ختم ہوجاتا ہے۔

احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کی برطرفی کے بعد ماہرین قانون نے بھی سابق وزیر اعظم نواز شریف کے مقدمات کے فیصلوں پرقانونی رائے کا اظہار کیا ہے۔

جیو نیوز کے پروگرام ’نیا پاکستان‘ میں گفتگو کرتے ہوئے ممتاز قانون دان بیرسٹرعلی ظفر کا کہنا تھا کہ اگر کسی جج پر دباؤ ثابت ہوجائے تو کیس کا فیصلہ بھی ختم ہوجاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ارشد ملک نے ایک کیس میں نوازشریف کو بری کیا تو دوسرے میں سزا دی اور اب یہ معاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہے۔

بیرسٹرعلی ظفر کا کہنا تھا کہ لگتا ہے کہ معاملے کودوبارہ نئے جج کے سامنے پیش کیا جائے گا کیونکہ جتنے شواہد آچکے ہیں لگتا ہے اُن کی بنیاد پردوبارہ بحث سنی جائے گی۔

ان کا کہنا ہے کہ دونوں کیسزمیں نوازشریف بری بھی ہوسکتے ہیں اورانہیں سزا بھی ہوسکتی ہے۔

علاوہ ازیں  قانون دان شاہ خاور کا کہنا تھا کہ عام حالات میں جج کوعہدے سے ہٹانے پر اس کے فیصلوں پراثرنہیں پڑتا اور ارشد ملک کے برطرف ہونے سے نوازشریف کے خلاف فیصلہ معطل نہیں ہوسکتا۔

انہوں نے کہا کہ نوازشریف کے وکلاء اِس برطرفی کو اپیل کا حصہ بناسکتے ہیں کیونکہ العزیزیہ کیس کے حوالے سے جج کا مس کنڈکٹ سامنے آیا ہے۔

خیال رہے کہ لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس محمد قاسم خان نے ویڈیو اسکینڈل میں ملوث احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک کو ملازمت سے برطرف کردیا ہے۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کی سربراہی میں 7 رکنی انتظامی کمیٹی نے ارشد ملک کی برطرفی کا فیصلہ کیا۔

اس حوالے سے ردعمل میں سابق وزیراعظم نواز شریف کی بیٹی مریم نواز نے والد کی سزا بھی ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

واضح رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے قائد اور سابق وزیراعظم نوازشریف کو جج ارشد ملک نے ہی العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی جب کہ فلیگ شپ ریفرنس میں بری کیا تھا۔

اس کے علاوہ وزیراعظم عمران خان کے مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان کو بھی برطرف جج ارشد ملک نے ویڈیو اسکینڈل سے 12 دن قبل نندی پور ریفرنس سے بری کیا تھا۔

بابر اعوان نے دوران ٹرائل 2 مرتبہ ریفرنس سے بریت کی درخواستیں جمع کرائیں جب کہ انہوں نے بریت کی پہلی درخواست واپس لیتے ہوئے کہا کہ ٹرائل کا سامنا کریں گے لیکن بابر اعوان نے فرد جرم عائد ہونے کے بعد دوبارہ بریت کی درخواست جمع کرائی جس پر احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے 25 جون 2019 کو بابر اعوان کی درخواست بریت منظور کی۔

مزید خبریں :