پاکستان
Time 07 جولائی ، 2020

'سندھ حکومت نے عزیر بلوچ کی اصل جے آئی ٹی رپورٹ جاری نہیں کی، چیف جسٹس نوٹس لیں'

وفاقی وزیر برائے بحری امور علی زیدی کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت کی جانب سے جاری کی گئی عزیر بلوچ سے متعلق مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی  رپورٹ نامکمل ہے، چیف جسٹس اس کا از خود نوٹس لیں۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے علی زیدی نے کہا کہ سندھ حکومت نے جو رپورٹ ریلیز کی یہ اصل رپورٹ نہیں ہے، اس پر لکھا ہے پارٹ ون  جو اصل رپورٹ تھی  جس رپورٹ پر ڈیڈ لاک ہوگیا تھا وہ 43 صفحات کی ہے، اس پر کسی کے دستخط نہیں ہیں، اس میں فریال تالپور، عبدالقادر پٹیل، شرجیل میمن، یوسف بلوچ، ذوالفقار مرزا اور نثارمورائی کا نام ہے، اصل رپورٹ میں صاف لکھا ہے کہ پیپلزپارٹی کی لیڈرشپ کی ہدایات پرشرجیل میمن اور اویس مظفر ٹپی سارے کام کرواتے تھے.

 وفاقی وزیرعلی زیدی نے کہا کل پیپلز پارٹی ہی کے رہنما نبیل گبول کہہ رہے تھے کہ پوری جے آئی ٹی سامنے نہیں آئی.

انہوں نےچیف جسٹس پاکستان سے اپیل کی کہ ملک کے سب سے بڑے شہرمیں جوقتل وغارت ہوئی اس پر 184 تھری کے تحت ازخود نوٹس لیں۔ 

علی زیدی نے یہ بھی کہا کہ سانحہ بلدیہ کی جے آئی ٹی رپورٹ سندھ پولیس کے ایس پی رضوان نے نکالی تو اُن کا شکارپورٹرانسفر کردیا گیا، صوبائی وزير سعید غنی کے بھائی فرحان غنی نے ایماندار پولیس افسر کو ہٹایا۔

 وفاقی وزیر علی زیدی نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں لکھا ہے بلدیہ فیکٹری سانحہ پولیس کی ناقص کارروائی کی وجہ سے ہوا، یہ بھی کہا کہ کل پیپلز پارٹی ہی کے رہنما نبیل گبول کہہ رہے تھے کہ پوری جے آئی ٹی سامنے نہیں آئی، دلچسپ بات یہ ہے کہ اب تک یہ نہیں بتایا گیا کہ کس کے کہنے پر قتل کیے گئے۔ 

علی زیدی نے یہ بھی کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے انہیں یقین دلایا ہے کہ وہ اس معاملے پر اُن کے ساتھ ہیں۔ 

علی زیدی کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی رپورٹس میں ملزمان نے لوگوں کو مارنے کا تو اعتراف کیا لیکن جرم کس کے کہنے پر کیا یہ نہیں سامنے آیا۔

ان کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کی اصل رپورٹ 43 صفحات کی ہے جس میں فریال تالپور، عبدالقادر پٹیل، شرجیل میمن، یوسف بلوچ، ذوالفقار مرزا اور نثار مورائی کا نام ہے۔

علی زیدی نے کہا کہ جو رپورٹ ریلیز کی گئی ہے، اس میں لکھا ہے کہ عزیربلوچ نے جلیل اور رزاق کمانڈو کے بھائی کو مارا، جس رپورٹ پر اداروں کے دستخط ہیں اس رپورٹ میں ہے کہ 2011 میں عبدالقادرپٹیل نے جلیل کے قتل کی ذمہ داری دی۔

وفاقی وزیر کا کہنا ہے کہ رپورٹ میں صاف لکھا ہے کہ ذوالفقار مرزا کے پارٹی چھوڑنے کے بعد شرجیل میمن اور ٹپی ان سے کام کراتے تھے۔

علی زیدی نے مزید کہا کہ سندھ حکومت کی رپورٹ میں چیزیں ’مسنگ‘ ہیں، ضرب عضب دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف تھا لیکن اب بہت سارے سہولت کار اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔

انہوں نے  چیف جسٹس سے معاملے پر از خود نوٹس لینے کی درخواست کی اور کہا کہ چیف جسٹس مجھے بھی بلائیں، تمام دستخط کرنے والوں کو بلائیں اور کارروائی کریں۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز سندھ حکومت نے لیاری گینگ وار کے سرغنہ عزیر بلوچ، سابق چیئرمین فشر مین کوآپریٹو سوسائٹی نثار مورائی اور بلدیہ فیکٹری کی جے آئی ٹی رپورٹس جاری کیں تھیں جن میں اہم انکشافات سامنے آئے ہیں۔

مزید خبریں :